Montag, 5. September 2011

عمران بھنڈر کی کتاب کج فہمی اور ژولیدہ بیانی کا شاہکار

 (نظام صدیقی (الٰہ آباد

مغربی تناظر میں ’فلسفۂ مابعد جدیدیت‘ کا برہان قاطع
(عمران بھنڈر کی کتاب کج فہمی اور ژولیدہ بیانی کا شاہکار)
دنیائے ادب کے اندیشہ میں مبتلا قاضی القضایہ نام نہاد شمس العلما کا ’خرِ نامشخص ‘ (بہ ترکیبِ غالب) عمران شاہد بھنڈر ذہنی ایذادہی اور نفسیاتی ایذاپسندی کے مرض میں مبتلا بدترین نرگسیت کا شکار ہے۔ گدھا ہزار بار حج کرنے کے بعد بھی حاجی نہیں ’’نازی گدھا‘‘ کہلانے کے خبط کا قتیل ہوسکتا ہے۔ کہاوت ہے کہ پٹھانوں کی عقل گھٹنے میں ہوتی ہے اور بھنڈروں کی عقل ٹخنے میں ہوتی ہے۔ عظمت اللہ خاں اور شبیر حسین خاں (جوش ملیح آبادی) زندگی بھر غزل کی آنکھ پر گھٹنے مارتے رہے۔ غزل کا تو بال بیکا نہیں ہوا۔ یہ دونوں ’’ناغزل مرد‘‘ وقت کی ایک ہی گردش کے بعد ردّی کی ٹوکری کا رزق بن گئے۔ اب نئے محاورہ ’’مارو ٹخنہ پھوٹے آنکھ‘‘ کے مصداق عمران شاہد بھنڈر کُل اردو ادب کی آنکھ کو پھوڑنے کے زعم میں یکسر مخبوط الحواس ہوگیا ہے۔ اس کو نہیں معلوم کہ گوپی چند نارنگ کی ’’تیسری آنکھ‘‘ (شیو نیتر) دھیان گیان کے باعث متحرک اور بیدار ہے اور وزیرآغا کی تو ’’چوتھی آنکھ‘‘ بھی وا تھی جو ’’قَدَم کی آنکھ‘‘ ہے جو بیک وقت ’’چشم جاں‘‘ اور ’’چشم اللہ‘‘ ہوتی ہے۔ یہ لوگ Philosophia (قید و نظر) سے آگے Philosia (آزادئ فکر و نظر) کے عارف ہیں۔ جس سے عمران شاہد بھنڈر اپنی بدترین محسن کشی اور احسان ناشناسی کے باعث ابھی تو قطعاً محروم ہے۔ حیدر قریشی نے ’’جدید ادب‘‘ میں اس کا جعلی تعارف کرایا تھا کہ وہ مابعدجدیدیت کی ادبی تھیوری پر ڈاکٹریٹ(*) کررہا ہے جبکہ مابعد جدیدیت ثقافتی تھیوری کی علمبردار ہے۔ ادبی تھیوری تو فی زمانہ شہرادب سے باہر ریٹائرڈ سالارِ جدیدیت کی تھیوری تھی جو اول و آخر صرف ہیئت پرستی اور فنیت کو ہی مسجود سمجھتی تھی اور سماجیاتی، اقتصادی اور سیاسی تناظر کو قطعاً غیرادبی بدعت تصور کرتی تھی۔ گوپی چند نارنگ نے تو ہندستانی تواریخی، عمرانی، ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی تناظر میں ’’اردوئی مابعد جدیدیت‘‘ کی طبعزادانہ طور پر تخلیق، تشکیل اور تعمیر کی ہے۔ اس میں اردو کی پوری مابعد جدید نسل کے شاعروں، افسانہ نگاروں اور ناقدوں کا خونِ جگر شامل ہے۔ اس خورشید آسا صداقت کی شاہد عادل نارنگ کی مرتب کردہ اہم اور معنی خیز کتاب ’’اردو مابعد جدیدیت پر مکالمہ‘‘ ہے۔ اس ضمن میں ان کا دسمبر 1995 کا غالب اکادمی سلور جبلی توسیعی خطبہ ’’ترقی پسندی، جدیدیت، مابعدجدیدیت‘‘، ’’ادب کا بدلتا منظرنامہ‘‘ سمینار کا کلیدی خطبہ ’’مابعدجدیدیت، اردو کے تناظر میں‘‘، ’’مابعد جدیدیت کے حوالہ سے کشادہ ذہنوں اور نوجوانوں سے کچھ باتیں‘‘ خصوصی طور پر قابل ذکر و فکر ہیں۔ بعد کے یہ دونوں مقالات تو پہلے سہ ماہی نیاورق بمبئی میں ہی شائع ہوئے تھے۔ البتہ انھوں نے صرف ’’علمیاتی بصیرتوں‘‘ کو پوری دنیا کے تنقیدی ادبیات سے اپنے عالمی، قومی اور مقامی انتخابی شعور و آگہی کے زیراثر منتخب اور منور کیا ہے اور ان کا اپنے قومی سیاق و سباق میں نہایت تنقیدی اور بصیرتی تمیز و تہذیب کے ساتھ اردوئی مابعدجدیدیت میں استعمال کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ان کا مضمون ’’مابعدجدیدیت عالمی تناظر میں‘‘ اس خورشید نیمروزی صداقت کا گواہ ہے۔ نارنگ کے ان تمام مقالات میں تنقیدی بصیرت اور تخلیقی تخیل کا بھرپور استعمال ہوا ہے۔ ان کے اندر مختلف عالمی، مقامی اور قومی افکار کی تفہیم، تعبیر، تفسیر، تنویر اور معروضی تجزیہ کاری کی فطری اہلیت ہے۔
اس غیرمعمولی تنقیدی قابلیت کی عملی اور اطلاقی کارکردگی کا مظہر ان کا آرٹیکل ’’کیا تنقید کی بدلتی ترجیحات اور رویے ہمیشہ نظریاتی اور اقداری نہیں ہوتے؟‘‘ (اطلاقی تنقید : نئے تناظر مرتبہ گوپی چند نارنگ) خصوصی طور پر ہے جو اُن کی ادبی اخلاقیات، تعقلات اور اطلاقیات کا ترجمان ہے۔ محولابالا ان دو کتابوں کی بنیاد پر واقعتاً اردو ادب میں ایک وقیع اور فکرانگیز مکالمہ شروع ہوا ہے۔ یہ معنویات افروز مکالمہ جاری و ساری ہے۔ معاصر رجحان ’’اردوئی مابعدجدیدیت‘‘ پر کئی مذاکرے اور اجتماع منعقد ہوچکے ہیں۔ متعدد اہم اور معنی خیز کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
ان تمام زندہ، تابندہ اور پائندہ لطیف تر تنقیدی اور ادبی حقائق سے ناواقف کنویں کا مینڈھک عمران شاہد بھنڈر اپنے نابالغ ذہنی زعم میں مغربی تناظر میں کج مج خام مغربی ’’فلسفۂ مابعدجدیدیت‘‘ کو اردو کے قارئین کے لیے نہایت غیرسنجیدگی اور پھوہڑپن سے پروس رہا ہے۔ وہ مغربی فلسفہ میں محض طالبانہ سطح پر ایم فل ہے۔(*) اپنی طالب علمانہ تھیسس کے کج مج پھوہڑ ابواب کو ہی کارٹونی مضحکہ انگیز انداز میں نہایت انتقامی جذبہ کے تحت پیش کررہا ہے جو اردو ادب کے لیے قطعاً ناموزوں، نامعقول اور نامناسب ہے۔ یہ لایعنی اور بے مغز کتاب اردو ادب کے ثقافتی اور علمیاتی تناظر میں قطعاً قابل ردّ ہے۔ اس بے مایہ مستعار غیرتناظری اور غیرسیاقی مجہول کتاب کی قومی، مقامی اور علاقائی معنویت، اردوئی اہمیت اور دیسی جمالیاتی، قدریاتی، قدسیاقی اور الوہیاتی قدر و قیمت اردو زبان کے سیاق و سباق میں صفر ہے۔ وہ نہ تو عظیم تر ہندستانی فلسفہ سے واقف ہے اور نہ مغربی فلسفہ کا اچھا اور سچا طالب علم ہے۔ علم بغیر حلم کے نصیب نہیں ہوتا ہے۔ وہ محض شنکر کے ماورائی نظریہ کی سنی سنائی باتوں کے پس منظر میں ہوائی اور خلائی نیم فلسفیانہ اور غبیانہ باتیں کررہا ہے جو سب کی سب مستعار اور ترجمہ شدہ ہیں۔ وہ خود ہی اول و آخر بدترین مترجم اور قابل نفریں سارق ہے۔ اس کو تو صحیح اور فصیح اردو پر دسترس بھی حاصل نہیں ہے۔ وہ تو نارنگ کے گرانقدر تعقلات افروز ’’سنسکرت شعریات اور ساختیاتی فکر‘‘ اور ’’عربی فارسی شعریات اور ساختیاتی فکر‘‘ کی مطالعاتی کارکردگی کا اہل ہی نہیں ہے تو وہ نارنگ کی غیرمعمولی تفہیماتی، تعبیراتی اور تجزیاتی قابلیت اور اطلاقی بین علومی کارکردگی کو کیا سمجھے گا؟ مشرقی اور مغربی علمیات اور جمالیات کی تمام علمیاتی اور جمالیاتی مماثلتوں اور امتیازوں کی لطیف ترین نکات جوئی اور اکسراتی تجزیہ کاری کے لیے ان کی مابعد جدید علمیات و قدریات کے جوہر اصل تک رسائی کی، قدرشناسی اور قدرفہمی کی کہاں سے اہلیت اور قابلیت لائے گا؟
گوپی چند نارنگ نے نئی تھیوری کے مفکرین کی نئی بصیرتوں کا سنسکرت شعریات کے مفکرین اور عربی فارسی شعریات کے مفکرین کے فلسفیانہ اور مفکرانہ بصائر کا جو لطیف اور رفیع تقابلی مطالعہ کیا ہے اور اس کے عمیق تحلیل و تجزیہ سے جو نئے فکریاتی نتائج اخذ کیے ہیں، وہ یکسر صاف و شفاف نئے علمیاتی نتائج ہیں۔ وہ مابعدجدید عالمی تنقید کی نوفکریاتی نتائجیت (New Pramatices) میں بھی نہایت قابل ذکر و فکر ہیں۔ ان نئی نتائجیہ جہات (New Pramatic Dimensions) سے انکار کرنا یکسر فکری بددیانتی ہے۔ ادب میں ایک انچ کا اضافہ صدیوں میں ہوتا ہے۔ اس سے محروم بصیرت عمران شاہد بھنڈر قطعاً ناواقف محض ہے۔ ابھی تو بھنڈر ابصار اور بصائر کا فرق نہیں جانتا ہے۔ ادبی دہشت پسندی کے اصلی شیطان کے نمائندہ بھنڈر کی بے بنیاد غیرتنقیدی اور غیرادبی افواہوں اور اٹکلوں سے بھڑکیلی اور بھڑکاؤ سنسنی خیز نیوز تو بن سکتی ہے لیکن اس میں حقیقت خودکشی کرتی ہے۔ صداقت، انصاف اور تواریخی قوتیں گوپی چند نارنگ کے ساتھ ہیں۔ ان میں پیچھے پن کی جانب جانے کے بجائے نئے پن کے لیے ذہنی کشادگی اور زبردست فوکس ہے۔ بھنڈر اپنے مٹی کے پیروں پر کلہاڑی مارنے میں چھوٹا استاد ہے۔ ایک دن اس کو پتہ چلے گا کہ وہ ’’وِدَراوے‘ ہوگیا ہے۔ نارنگ نے طرزکہن پر اڑنے اور آئین نو سے ڈرنے کے بجائے اردو ادب کو تنقید کا نیا ماڈل عطا کردیا۔ نتیجتاً نہ صرف ہندوپاک بلکہ اردو کی نئی بستیوں میں بھی نارنگ کے نام کا ڈنکا بج گیا ہے۔ نارنگ نے اپنے نوتواریخ ساز آرٹیکل ’’تنقید کے نئے ماڈل کی جانب‘‘ کے اختتامیہ پر نہایت دوراندیشی سے حاضر اور نیم حاضر مقتدرات کی سازشوں اور بارودی سرنگوں سے بچنے کے لیے دافأ بلیات الطاف حسین حالی کا نسخۂ نجات یا رُقعۂ آخرہ چسپاں کررکھا ہے۔ ’’لیکن اگر صرف غلطیوں کے دکھانے پر ہی اکتفا کیا جائے اور خوبیوں کو بہ تکلف برائیوں کی صورت میں ظاہر کیا جائے تو بھی ہم اپنے تئیں نہایت خوش قسمت تصور کریں گے۔‘‘ بڑی دوررس تخلیقی بصیرت پہلے سے ہی بڑی دوررس پیش بندی اور زائچہ بندی کر بے فکر ہوجاتی ہے اور ہر نوعیت کے منفی رویوں کو اپنی ابدی ادبی زندگی کی پوری کھِلاوٹ کے لیے انھیں زرخیز کھاد میں منقلب کرلیتی ہے۔
عمران شاہد بھنڈر تو پوری کتاب میں بار بار اپنی فکری بے دست و پائی اور اخلاقی شکست خوردگی کے باعث اپنے مضمحل اور مدقوق غیرمعروضی ذاتی تعصبات اور تاثرات کو نہایت کج مج اور پیچ در پیچ انداز میں پیش کررہا ہے۔ وہ بار بار ایک ہی بات کو دہرا رہا ہے کہ نارنگ مترجم ہیں یا سارق! نارنگ نہ تو مترجم ہیں اور نہ سارق ہیں۔ وہ نت نئی ’’ادبی بصیرت‘‘ کے اول و آخر جوئندہ اور یابندہ ہیں۔ وہ ان کو اپنے اردوئی تناظر میں منقلب کرنے والے ایک عظیم تر نظریہ ساز اور کیمیاگر ہیں۔ ان کو مٹی کو سونا بنانے کی خوش ہنری اور خوب ہنری آتی ہے تو ہی ’’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ نئی اردوئی بوطیقا کے روپ میں وجودپذیر ہوئی ہے اور اس کو قبولیت اور محبوبیت بھی نصیب ہوئی ہے۔ نارنگ کے اس غیرمعمولی نظریاتی کیمیائی عمل سے اردوئی تناظر کو، ہندستانی تناظر کو اور دیسی تناظر کو یکسر نئی زندگی اور نئی روح نصیب ہوئی ہے۔ نارنگ اپنی نت نئی بصیرت جوئندگی اور پابندگی کے باعث فی زمانہ ہندستانی مابعدجدید تناظر میں ’’نئے عہد کی تخلیقیت‘‘ تک پہنچ گئے ہیں جس سے عمران شاہد بھنڈر کے فرشتہ بھی ابھی تک ناواقف محض ہیں۔ اس کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ اس میں اردو ادب شناسی اور اردو ادب فہمی کمیاب ہے۔ اب وہ خود ہی حیدر قریشی کے لکھے ہوئے مختصر تعارف نامہ کو مسترد کر اپنا حلیمانہ تعارف کرا رہا ہے کہ اس نے 2007 میں ’’فلسفہ انگریزی ادب‘‘ میں ایم اے کیا ہے(*) اور 2009 میں سولی ہل کالج سے ایجوکیشن میں سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد برطانیہ میں ہی شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہوگیا ہے۔ شعبۂ تعلیم میں گھٹنوں کے بل چلنے والا بھنڈر شعبۂ تعلیم کی ہمالیائی چوٹی ہمادری گوپی چند نارنگ کے منہ لگنے والا بھنڈر، ادب کے ساتویں آسمان پر تھوکنے کی بیجا جسارت کرنے والا بھنڈر آج خود اپنے پاس واپس ہوئے تھوک کو بار بار نگل اور اُگل رہا ہے۔ اس کی بچکانہ اور طالب علمانہ تعارفی کتاب ’’فلسفہ مابعدجدیدیت‘‘ اس کی بچکانی فکریاتی جگالی کی اگالدان ہے۔ اس میں اپنے موضوع کی سطحی روشناسی تو ہے لیکن حلیمانہ روح شناسی نایاب ہے۔
بھنڈر کی پوری کتاب بھانومتی کا پٹارہ ہے اور انتہائی جاہلانہ زعم میں گانٹھی گئی ہے۔ عمران بھنڈر عام ریسرچ اسکالر کے مانند اچھا موچی بھی نہیں ہے۔ ابوجہل اور ابولہب اردو کے ریٹائرڈ ناقدین نے اس کو اپنے اپنے بانسوں پر چڑھا رکھا ہے۔ نہ بانسوں میں دم ہے اور نہ ناقدین میں کس بل ہے۔
دوسرے ایڈیشن میں نہایت انتقامی طور پر کئی نئے ابواب کا اضافہ کیا ہے۔ لیکن ان سب میں ’’بھُس‘‘ بھرا ہے۔ ذہنی غفلت کے باعث ایک بار کے بعد ہر جگہ صرف ’’مابعد جدیدیت پر مکالمہ‘‘ کا حوالہ دیتا ہے اور نفسیاتی دہشت زدگی کے باعث ’’اردو‘‘ کو گول کردیتا ہے اور قاری کو غچہ دیتا ہے۔ اس کا سارا کھیل دراصل کاذبانہ شباہت افروزی یا شباہت کذبی کا ہے۔ وہ بذات خود بدترین مترجم اور سارق ہے اور وہ بھی نہایت نیم پخت اور 
Green Horn!وہ سبز قدم ہے۔
یہ طالبانی سرجیکل اسٹرائک بھی پھُس ہوگیا اور بھنڈر بھی ’’چُک‘‘ گیا۔ وہ اپنے کو بار بار (بدترین طور پر) دہرا رہا ہے جو عبرت انگیز ہے۔
شہر بمبئی، شہر الٰہ آباد اور شہر دہلی کے ادبی طالبان اور لشکران اپنی بدترین غیرادبی طالبانیت اور لشکریت کے باعث بھنڈر کی کتاب کو مفت میں بانٹ رہے ہیں۔ ان ریٹائرڈ غیر ادبی ابوجہلوں اور ابولہبوں کا مقدر شکست فاش ہے۔ فاتح دل فاتح روح اور فاتح زمان و مکاں اردو کا محبوب اور معشوق اور بیک وقت محب اردو اور عاشق اردو پروفیسر گوپی چند نارنگ آج بھی اپنے بیکراں ادبی خلوص اور بے پایاں ادبی اور تنقیدی بصیرت کے باعث ناقابل تسخیر ہے کیونکہ وہ فطرتاً لانہایت اور بے نہایت حلیم و علیم ہے۔ وہ اپنی فطری حلیمی اور علیمی رخشندگی کے باعث اردو ادب میں حالی کے مانند ہمیشہ زندہ، تابندہ اور پابندہ رہے گا۔ یہ فضل ربی اور رحمت الٰہی ہے جس سے راندۂ درگاہ ادبی طالبانی اور لشکران محروم ہیں۔ مغربی تناظر میں ’’فلسفۂ مابعد جدیدیت‘‘ کاغذ، قینچی اور گوند کی کرشمہ سازی سے تیارکردہ جعلی تنقیدنگاری کا نظربند اور فریب نظر ایبسرڈٹھیٹر ہے۔ اس میں کاذبانہ شباہت افروزی (Simulcra) کے ذریعہ تنقیدی سراغ رسانی اور تحقیقی رزم آرائی کے غیرسنجیدہ مناظر نہایت بے ڈھب اور لچر ڈھنگ سے مرتب اور مدون کیے گئے ہیں۔ یہ کہیں کے نام نہاد فلسفیاتی اینٹ اور کہیں کے علمیاتی روڑہ کا مضحکہ انگیز غیرعلمیاتی اور غیرفلسفیاتی پٹارہ ہے۔ یہ اکیسویں صدی کے مابعدجدید منظرنامے پر اردو کے سنجیدہ اور رنجیدہ قارئین کے لیے بیک وقت نہایت پیچیدہ، گنجلک لیکن نہایت قہقہہ آور ’’غیرتحقیقی اور غیرتنقیدی کتاب‘‘ ہے۔ اس کے جملہ جائز اور ناجائز حقوق عمران شاہد بھنڈر کے نام محفوظ ہیں۔ خدا کرے وہ اردو دنیا کے لیے ہمیشہ خطرناک حد تک سنجیدہ اور قہقہہ بار رہے۔ اُس کی آنے والی کتاب (ادبی یا غیرادبی) ’’سامراجی دہشت گردی کا فلسفیانہ جواز‘‘ ہے۔ اس کا نام ہی بیک وقت ڈرانے دھمکانے اور ہنسانے اور گدگدانے کے لیے کافی اور شافی ہے۔ جو نیتھن سوئفٹ کی بابت جارج آرول نے اظہارخیال کیا ہے کہ وہ انسانی معاشرہ اور انسانی فطرت کے مشاہدہ کے ضمن میں جزوی طور پر اندھا تھا۔ اس نے آدمی کے منفی نحوست آگیں، ظلمت پسند رویہ اور غلیظ ابتذال پرور برتاؤ اور عمل کو ضرور دیکھا تھا۔ مگر انسان کے لطیف اور رفیع پہلو کو نہ دیکھا اور نہ غور کیا۔ عمران شاہد بھنڈر اپنے اسی منفی اور غیرانسانی رویہ کے باعث ’’مغربی فلسفۂ مابعدجدیدیت‘‘ کے منی سرکس کا مسخرا بن کر رہ گیا ہے۔ اس نیم فلسفیاتی منی سرکس میں کہیں بھی مختلف ’’سرکسی عناصر‘‘ اور ’’سرکشی اجزا‘‘ میں قطعاً ’’ظہورترتیب‘‘ مفقود ہے۔ وہ اول و آخر نیم فلسفیانہ اجزائے پریشاں کا نہایت مبہم، مغلق اور غیرصاف و شفاف ملگجی آئینہ خانہ ہے جو نیم فکریاتی ابہام، اہمال اور اشکال کی لایعنی منطق کے ’’کِل کِل کانٹا گھر‘‘ میں منقلب ہوگیا ہے۔ اس کی دو نیم انتہائی نمائشی سنجیدگی نما مسخرگی، بے معنویت، مہملیت اور سفاک منفیت کے پس منظر میں اکرم نقاش، اذکار، بنگلور کا چُبھتا ہوا اہم سوال اور گوپی چند نارنگ کا دو ٹوک، بے لاگ اور مسکت جواب خاطرنشیں ہو۔
اکرم نقاش : بڑی شخصیتیں متنازعہ بھی ہوتی ہیں۔ کیا آپ اس مفروضے سے خود کو مستثنیٰ سمجھتے ہیں؟ حال ہی میں آپ کی کتاب ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ کے بارے میں کچھ تحریریں منظرعام پر آئی ہیں۔ کیا ان تحریروں کا جواب خاموشی ہی ہوسکتی ہے؟
گوپی چند نارنگ : آپ نے وہ مثل تو سنی ہی ہوگی، ’’جوابِ جاہلاں باشد خموشی‘‘ کتاب کے ابواب کو چھپے ہوئے آج چوبیس پچیس برس ہوگئے۔ آپ نے میری کتاب پڑھی ہوگی۔ اگر پڑھی ہے تو اس کا دیباچہ بھی دیکھا ہوگا۔ انتساب بھی دیکھا ہوگا۔ جملہ کتابیات کی فہرستیں بھی دیکھی ہوں گی۔ تعجب ہے کہ بات ’’واوین‘‘ اور ’’قوسین‘‘ کی جاری ہے۔ کتاب کے مباحث، ان کی عمدگی یا کمی کی نہیں۔ اگر کوئی بات بربنائے خلوص کہی جائے تو اس پر غور کرنا فرض ہے لیکن جب معلوم ہوکہ جو کچھ کہا جارہا ہے وہ بربنائے سازش کہا جارہا ہے یا کردارکشی و خوردہ گیری کی مہم کا حصہ ہے تو اس کے بارے میں وہی کہا جاسکتا ہے جو میں نے اوپر کہا ہے
’’ادب میں اختلافات ہمیشہ رہیں گے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ خرابی وہاں ہوتی ہے جب لوگ نظریاتی یا فکری طور پر اپنے تصورات کا دفاع نہیں کرسکتے تو اوچھے ہتھیار اپنانے لگتے ہیں۔ یہ گندگی پہلے نہیں تھی۔ واضح رہے کہ گالی، کمزور فریق کا ہتھیار ہے۔ جب دلیل کو دلیل سے نہیں کاٹا جاسکتا تو لوگ مغلظات بکنے لگتے ہیں یا درپردہ فرقہ، برادری، مسلک کا سہارا لے کر اپنے احساس کمتری کو سہلاتے ہیں۔ اختلافات کو برداشت کرنا اور اپنی راہ کھوٹی نہ کرنا بڑپّن اور عالی ظرفی کی دلیل ہے۔ میری شدید خواہش ہے کاش ایسا ہو۔ لیکن ظرف چھوٹے ہوگئے ہیں اور شخصیتیں کوتاہ۔‘‘
(’’دیکھنا تقریر کی لذت، ص 53، بنگلور 2010، ترتیب و تہذیب مشتاق صدف)
’’پھر باتیں ان لوگوں کی طرف سے اٹھوائی جائیں جن کا تھیوری سے دور دور تک کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ بات سچ ہو تو ایک
بار کہنا کافی ہے۔ البتہ جھوٹ کے لیے بار بار کہنا ضروری ہے۔ یہاں تو کھلی افتراپردازی اور کردارکشی ہے۔ بمبئی کے ایک کرم فرما نے جو کچھ لکھا تھا۔ اُن کا مسئلہ ذاتی تھا جو سب کو معلوم ہے اور جسے میں دہرانا نہیں چاہتا۔ ان لوگوں کا مسئلہ بھی علمی نہیں ذاتی ہے۔ پھر بھی تین برس پہلے جب نندکشور وکرم اپنی کتاب چھاپ رہے تھے تو اُن کے پوچھنے پر میں نے صاف صاف کہا تھا اور میرا جواب چھپا ہوا موجود ہے :
’’جب میں نے تھیوری پر کام کرنا شروع کیا چونکہ میری تربیت ساختیاتی لسانیات کی ہے، مجھے احساس تھا کہ فلسفے میں بنیادی ضرورت سائنسی معروضیت کی ہوتی ہے۔ میرے سامنے ایسے نمونے تھے جہاں لوگ بات تو فلسفے کی کرتے ہیں لیکن جلد تخئیل کے پروں سے اڑنے لگتے ہیں۔ بہت سے اصل متن سے زیادہ خود کو نمایاں کرنے میں لگ جاتے ہیں یا پھر اپنے اسلوب کا شکار ہوکر انشائیہ لکھنے لگتے ہیں۔ ایک تو اصطلاحیں نہیں تھیں۔ دوسرے نئے فلسفیوں کا انداز ایسا پیچیدہ، معنی سے لبریز اور گنجلک ہے کہ اسے سائنسی معروضی صحت کے ساتھ قاری تک منتقل کرنا زبردست مسئلہ تھا۔ اصل متن کی صداقت و درستگی (Preciseness) اور زور وصلابت (Rigour) بنائے رکھنے کے لیے بے حد ضروری ہے کہ افہام و تفہیم میں ہر ممکن وسیلے سے مدد لی جائے اور فلسفے کے ڈسپلن کی رو سے تخئیل کی رنگ آمیزی سے اور موضوعی خیال بافی سے ممکنہ حد تک بچا جائے۔ میری کتاب کے شروع کے دونوں حصے تشریحی نوعیت کے ہیں۔ مشرقی شعریات اور اختتام والے حصوں کی نوعیت بالکل دوسری ہے۔ نئے فلسفیوں اور ان کے نظریوں اور اُن کی بصیرتوں کی افہام و تفہیم میں میں نے استفادہ اور اخذ و قبول سے بے دھڑک مدد لی ہے۔ جہاں ضروری تھا وہاں تلخیص و ترجمہ بھی کیا ہے اور ظاہر کردیا ہے۔ بات کا زور بنائے رکھنے کے لیے اصل کے مقولات (Quotations) بھی جگہ جگہ دینے پڑے تاکہ فلسفیانہ نکتہ یا بصیرت پوری قوت سے اردو قاری تک منتقل ہوسکے۔ ہر حصہ کے ساتھ اس کے جملہ مآخذ اور کتب حوالہ کی فہرست دی ہے (اسی لیے ان کو ’مصادر‘ کہا ہے) اور جن کتابوں سے نسبتاً زیادہ استفادہ کیا ہے یا جن سے زیادہ مدد لی ہے، مآخذ کی فہرست میں ان ناموں پر اسٹار (*) کا نشان بنادیا ہے۔ واضح رہے کہ خیالات سوسیئر، لیوی اسٹروس، رومن جیکب سن، لاکاں، دریدا، بارتھ، فوکو، کرسٹیویا، شکلووسکی، باختن وغیرہ کے ہیں، میرے نہیں۔ اس لیے کتاب کا انتساب ان سب فلسفیوں اور مفکروں کے نام ہے جن کے خیالات پر کتاب مشتمل ہے۔ اس امر کی وضاحت دیباچہ میں کردی گئی ہے کہ ’’خیالات اور نظریات فلسفیوں کے ہیں۔ افہام و تفہیم اور زبان میری ہے۔‘‘ ان فلسفیوں کو سمجھنا اور انھیں اردو میں لے آنا اور اردو میں اس طرح لے آنا کہ دوسرے بھی اس افہام و تفہیم میں شریک ہوسکیں اور جن کو اشتیاق ہو وہ چاہیں تو اصل کتابوں سے بھی رجوع ہوں اور ان بصیرتوں سے آگاہ ہوسکیں۔ میرے لیے مفکرین کی معروضی افہام و تفہیم بہت بڑا چیلنج تھا۔ میں اس سے عہدہ برآ ہوبھی سکا یا نہیں یا اردو میں کسی دوسری کتاب یا کسی دوسرے نے یہ تاریخی ضرورت پوری کی۔ اس پر مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ معترضین میری کتابیات (مصادر) اور اعتراف (دیباچہ) کا عمداً ذکر نہیں کرتے، یہ کھلی بددیانتی نہیں تو کیا ہے، ایسا کریں تو پھر جھوٹ کیسے بولیں!
(گوپی چند نارنگ : بین الاقوامی اردو شخصیت، مرتبہ نندکشور وکرم، دہلی 2008، ص 145)
ان ساری باتوں کی تفصیل میں نے دیباچے میں دے دی ہے اور سب مآخذ کے نام کتابیات میں درج ہے۔ کم و بیش ہر صفحہ فلسفیوں کے اقوال اور ان کے نام سے روشن ہے۔ ’مصادر‘ میں بیسیوں کتابوں پر خاص نشان ہیں جن سے میں نے جی بھر کے فیضان حاصل کیا۔ معترضین افکار و نظریات پیدائش سے ساتھ لاتے ہوں گے۔ میں نے تو جو کچھ حاصل کیا کتابوں سے حاصل کیا۔ ان کے نام بھی دے دیے اور ان کو نشان زد بھی کردیا۔ ادّعا میرا مزاج نہیں، پھر بھی میں چیلنج کرسکتا ہوں کہ کسی ایک ماخذ یا کسی ایک مصنف کا نام اب بتادیں جس کا حوالہ میری کتابیات میں نہ ہو۔ میں نے اوپر کہا ہے کہ میں نے بے دھڑک استفادہ کیا ہے۔ ان بیچاروں کو تو لفظ سرقہ کے معنی بھی نہیں معلوم۔ ایک لفظ کہیں دیکھ لیا اس کا راگ الاپنے لگے۔ میں صاف کہہ چکا ہوں کہ افکار و خیالات نظریہ سازوں اور نقادوں کے ہیں ان کو سمجھنا اور ترسیل میری ہے۔ میں نے جی بھر کے افہام و تفہیم بھی کی اور اخذ و استفادہ بھی کیا۔ جہاں سے جو کچھ لے سکتا تھا ڈنکے کی چوٹ پر لیا۔ البتہ ان افکار سے موتیوں کی جو مالا بنائی ہے اس میں موتی تو کہاں کہاں کے ہیں مگر وہ مالا میرے ذہن نے میں نے پروئی ہے۔ میری کتاب کے شروع کے دونوں سیکشن تشریحی ہیں جس میں ساختیاتی اور پس ساختیاتی مفکرین اور نظریہ سازوں کے خیالات کو جیسا میں نے سمجھا انھیں غیرضروری خیال آرائی سے بچاکر حددرجہ معروضی انداز میں اپنے فہم و ادراک کے مطابق اپنی زبان میں بیان کردیا۔ میں نے یہ کب دعویٰ کیا ہے کہ یہ خیالات یا نظریات اوریجنل میرے ہیں۔ البتہ جو نظریاتی مرقع بنایا ہے وہ برا بھلا میرے ذہن و شعور نے یعنی میں نے ہی بنایا ہے۔ اتنا جانتا ہوں کہ سرقہ ورقہ، چوری وغیرہ یہ سازشی مہم بازی کا حصہ ہے، میری کتاب تو ایک معمولی کتاب ہے، یہ کیڑے ڈال کر اس کی توقیر بڑھاتے ہیں۔ خود اس سے بہتر کتاب کیوں نہیں لکھ دیتے، یا ایک نام بتا دیں جس کو میں نے نشان زد نہ کیا ہو؟ میں ایک معمولی مصنف سہی، اتنا جانتا ہوں کہ بڑے مصنف چھوٹی موٹی چوری نہیں بڑا ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ کالی داس نے بھی ڈاکہ ڈالا تھا، ان کا ہر شاہکار مہابھارت اور پرانوں سے ماخوذ ہے۔ شیکسپیئر نے بھی ڈاکہ ڈالا تھا۔ غالب نے بھی بیدل پر ڈاکہ ڈالا تھا ورنہ یاس یگانہ چنگیزی زندگی بھر نام نہاد غالب شکنی کا جوکھم نہ اٹھاتے۔ اقبال پر بھی قرۃ العین طاہرہ کا الزام عائد کیا گیا۔ میں نے تو اپنے دیباچہ میں قاری کو اصل مآخذ سے رجوع ہونے کو بھی کہا ہے اور میری کتاب سے آگے نکل جانے کی دعوت بھی دی ہے۔ مجھے اپنی کوتاہیوں کا احساس ہے۔ مجھے خوشی ہوگی ایک دن ایسا آئے جب معترضین میں سے کوئی ذاتیات سے ہٹ کر دلسوزی، خلوص اور نیک نیتی سے ایسا کام کرے کہ میرا کام رد ہوجائے۔ خدا کرے ایسا ہو۔‘‘
’’کچھ تو ایسا ہے کہ خود شمس الرحمن فاروقی نے کہا تھا کہ ’’ادھر تنقید کی سطح پر ایک زبردست وقوعہ ظہورپذیر ہوا ہے وہ گوپی چند نارنگ کی کتاب ہے، یہ کتاب دیر تک اور دور تک اردو تنقید کو متاثر کرے گی‘‘ پھر یہ بھی فرمایا کہ ’’ یہ ایک بین العلومی کتاب ہے جس کی قدر زمانہ کرے گا۔‘‘ اگر اس کا دس فیصد بھی سچ ہے تو یہ مجھ ناچیز پر ان کا کرم ہے۔
اکرم نقاش صاحب، کیونکہ ادھر آپ نے سب کچھ نہیں پڑھا، میں چاہوں گا کہ آپ ڈاکٹر مولا بخش کی کتاب ’جدید ادبی تھیوری اور گوپی چند نارنگ‘ کا آخری باب ’’معترضین نارنگ پر ایک نظر‘‘ جو چالیس پچاس صفحات پر مشتمل ہے، اسے ضرور ملاحظہ فرمالیں اور ذیل کے دو مضامین بھی جو اس کے بعد انھوں نے لکھے ہیں، ان کو بھی دیکھ لیں ہر بات کا جواب مل جائے گا :
"Charge of Plagiarism: Myth or Reality?", www.outlookindia.com
''The Courtiers and Clowns", www.outlookindia.com
(دیکھنا تقریر کی لذت، ترتیب و تہذیب مشتاق صدف، بنگلور، 2010)
گذشتہ صدی کی آخری اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی وصفی اور کمیتی لحاظ سے گہری اور دور رس اثر کو چھوڑ والی ہے۔ یہ اردوئی مابعدجدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک کی امین ہے جو اکیسویں صدی پر محیط ہوگی۔ حالات خواہ کتنے ہی بحران آگیں ہوں، مسائل کتنے ہی چیلنج آگیں ہوں۔ کسی بھی نوعیت کے ادبی طالبان اور تہذیبی لشکران کتنے ہی شخصیت، فکر و فن کش ہوں، کیا زندگی اور ادب میں نت نئی تبدیلی کو زندہ رہنے کی آرزو دم توڑ دے گی؟ ایسا نامیاتی سطح پر ممکن نہیں ہے۔ اکیسویں صدی کے مابعدجدیدیت تناظر میں صرف منفی طاقت ہی طاقت ہوگی کوئی اثبات آگیں چیلنج نہ ہوگی، للکار نہ ہوگی، چنوتی نہ ہوگی، واضح رہے کہ : دم سے آگے بم کبھی جاتا نہیں/ جان دے کر بم کو سمجھاؤں گا میں / خاک مجھ کو ہر سفر میں ساتھ رکھ / ذہن افروزی کے کام آؤں گا میں / (مقیم اثر)
زندگی اور ادب نت نئے تخلیقیت افروز ممکنات اور مضمرات سے مملو ہے۔ نت نئی تخلیقیت اور معنویت کسی ایک مقام پر رکتی نہیں۔ یہ ہر لمحہ جواں، ہر لمحہ جرأت آزما، ہر لمحہ تازہ کار اور ہر لمحہ تبدیلی آشنا ہے۔ نارنگ کی خیالی ادبی موت کو ڈبل ٹیپ (موت متعین کرتے ہوئے) بھنڈر کی فلسفۂ مابعدجدیدیت کو سازشاً دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔ اس کا غیرادبی مقدر اول و آخر ازلی و ابدی زبونی اور خرابئ بسیار ہے۔ یہ طالبانی سرجیکل اسٹرائک بھی پھُس ہوگئی۔ نارنگ آج بھی ہمہ رُخی روشنی کا مینار ہیں۔ ان کا ہر ورقِ دل ’’کاغذِ آتش زدہ‘‘ (مطبوعہ 2011) ہے۔
(نظام صدیقی، تحریر 5 مئی 2011)

 ::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
NOTE:
(*) بھنڈر کی بچکانہ کتاب پر یہ مضمون نما تبصرہ 5 مئی 2011 کو لکھا گیا اور پوسٹ کردیا گیا۔ ابھی ابھی اگست میں الٰہ آباد میں کسی نے بتایا (میرے پاس کمپیوٹر یا اس کے وسائل نہیں ہیں) کہ خود حیدرقریشی نے بھنڈر کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے کہ وہ جعلی شخص ہے اور مضحکہ خیزیوں میں طاق ہے۔ سبحان اللہ۔ چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی! میں نے تو یہ سب کچھ پچھلے برس اپنے مضمون ’’اردو ادب میں طالبانیت اور ادبی طالبان‘‘ میں لکھ دیا تھا (مطبوعہ رسالہ نیاورق، بمبئی، شمارہ 34، جون 2010، ص 167 تا 177) اب دوسرے بھی کہہ رہے ہیں۔ یہ انکشاف تو ایک دن ہونا ہی تھا۔ کاش اس سے نام نہاد شمس العلما اور پڑھے لکھے چودھری حضرات کچھ سیکھ سکیں جن سب کو بھنڈر نے بیوقوف بنایا اور خوب استعمال کیا۔ اب معلوم ہوا کہ ایم فل یا پی ایچ ڈی تو کیا اب تک اس کا رجسٹریشن ہی نہیں ہوا اور وہ دوسروں کے نام سے اپنے حق میں مضمون بھی لکھواتا رہا ہے جس کو نام نہاد شمس العلما اور ان کے حواری بانس پر چڑھاتے رہے ہیں۔ یہ سچائی ہے اور میں واشگاف طور پر لکھ چکا ہوں کہ عمران بھنڈر کج مج بیان اور برخود غلط ہے۔ اردو ادب شناسی کے معاملے میں صفر محض ہے۔ نرگسیت اور خودنمائی کا قابل رحم مریض ہے اور اس کی کتاب کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑہ، بھان متی کا پٹارہ ہے جو انڈر گریجویٹ لیول کی بھی نہیں۔ یہ انکشاف میں کرنا چاہتا ہوں کہ وہاں انڈرگریجویٹ طالب علموں کو کلاس میں جو Notes & Queries دیے جاتے ہیں، بھنڈر کی کتاب ان کا بھونڈا چربہ ہے۔ اوپر میں نے بالتفصیل لکھ دیا ہے اور ثابت کردیا ہے کہ یہ شخص اردو ادب فہمی و ادب شناسی سے عاری محض ہے اور اردوئی ادبی منظرنامہ سے اس کا دور کا بھی رشتہ نہیں، خودستائی اور خودنمائی اس درجہ کہ گھن آنے لگے۔ پوری کتاب کج مج بیانی، بے ربطی، طوالت، تکرار اور ژولیدہ بیانی کا شاہکار ہے۔ اب لوگ اس کو پڑھیں گے تو خود انھیں اندازہ ہوگا اور رحم بھی آئے گا کہ ایک طائفہ کیوں ہیجڑوں کی طرح تالیاں بجا بجا کر ناچ رہا تھا کیونکہ خود ان بیچاروں نے نہ تو کتاب پڑھی تھی نہ سمجھنے کی زحمت کی تھی۔
(نظام صدیقی، 9 اگست 2011)  :