Samstag, 1. Oktober 2011

مغربی ’’فلسفۂ ما بعد جدیدیت‘‘ کا اینٹی کلائمکس

نظام صدیقی
مغربی ’’فلسفۂ ما بعد جدیدیت‘‘ کا اینٹی کلائمکس
(۱)
ہندوستانی تناظر میں ’’اردوئی ما بعد جدیدیت‘‘ خصوصی طور پر ما بعد جدید ادب و تنقید کا ایک نیا مجتہدانہ زرّیں باب ہے۔ وہ مغربی سیاق و سباق کے فلسۂ ما بعد جدیدیت سے بہت حد تک مختلف اور جدا گانہ کردار کا امین ہے۔ اردوئی ما بعد جدیدیت اگر ایک طرف اردو کی تحریرات کو متعدد متون اور فوق متون (META TEXT ) میں پڑھنے، لطف اندوز ہونے اور سمجھنے کے لیے قاری کو ذہنی طور پر آزاد کرتی ہے تو دوسری طرف ایسے متعدد نت نئے مفید اور موثر معنی افروز فنّی وسائل کو تنقید کے دھیان میں لاتی ہے جو اب تک اُس کے دائرے سے باہر ہی مانے جاتے تھے۔ گذشتہ دو تین دہائیوں میں اُردو تنقید سے ذوقی اور لطیفی کردار کا یکسر معدوم ہونا ایک بدترین حادثہ ہے، کیونکہ وہ اُس کے سارے نام نہاد مکالمے، مخاطبے اور فکریاتی شِراکت اور مُداخلت کو مشکوک بنا دیتی ہے۔ ناقد کو بنیادی طور پر ذوق اندوز (رَسِک) اور ذوق پرور ہونا ناگزیر ہے۔ ذوقِ سلیم سے ہی تنقید میں فکر و دانش کی تخلیقیت اور معنویت پیدا ہوتی ہے۔ جو لوگ تنقید کو محض خشک فلسفیانہ فکریات میں تبدیل کرتے ہیں، اُن سے ادب کی تحسین، تفہیم اور تنویر میں کوئی خاص مدد نہیں مل پاتی ہے۔
تنقید کا بنیادی وظیفہ زندگی اور فن کے زندہ، نامیاتی اور متحرک رشتوں کی تلاش اور اُنھیں دکھا سکنے کی تنقیدی اہلیت اور عملی کارکردگی میں کارفرما ہوتا ہے۔ یہ تنقیدی فریضہ محض خام، مستعار اور بیجا فلسفیانہ مواد کی نمائش اور نیم اور دو نیم فلسفیانہ بُقراطیت بگھارنے سے ہرگز ادا نہیں ہوتا ہے۔ جو تنقید ہمیں کچھ دکھائے نہیں سوائے ناقد اور ادیب کے فکریاتی تعصبات، فلسفیاتی تاثرات اور پوشیدہ مفادات و تحفظات کی الجھنوں اور پیچیدگیوں بھری جھلک کے، وہ تنقید ہو ہی نہیں سکتی اور کچھ بھی کیوں نہ ہو؟ اس سفّاک صداقت کی بد ترین کم سواد مثال عمران شاہد بھنڈر کی نام نہاد کتاب’ فلسفۂ ما بعد جدیدیت ‘ ہے۔ وہ مغرب کے سامنے فلسفیانہ خود سُپردگی کی بُری لت کا عادی ہے۔ اس کُولاژ نُما بے ترتیب کتاب میں شعوری اور فکری چوکنّا پن اور ثروت انگیز نفسیاتی تناؤ بھی نہیں ہے اور نہ منطقی انتخابیت ہے۔ اس مانگے تانگے کے تاریکی نُما اُجالے میں جمہوری اختلافات کی گنجائش کے بجائے اندھی،گونگی اور بہری اِدّعائی اور اِذعانی فِسطائیت شروع سے آخر تک حاوی اور غالب ہے۔ گویا اُس کا فرمایا ہوا فرمانِ خُدا وندی کے مصداق ہے۔
اس ابو جہلی اور ابو لہبی طالبانہ اور لشکری فرمان کے بر خلاف اُردوئی ما بعد جدیدیت کے کئی جمالیاتی اور فکریاتی طریقۂ کار مشرقی سنسکرت شعریات اور مشرقی عربی اور فارسی شعریات میں موجود متون،اسالیب اور ہئتی و ساختیاتی تغیّرات سے مُماثل بھی ہیں۔ فیشن گزیدہ جدیدیت کے محض مغرب مرکوزہونے کی مُقلدانہ صورتِ حال میں ،یہ اُردوئی مابعد جدیدیت کا مُتبادل رجحان گہری انقلابی تبدیلی لاتا ہے اور اُس کے یکسانیت گزیدہ اور مغربی تقلیدیت گزیدہ جُغرافیہ کو تازہ کار اور نادرہ کار تنوع اور بو قلمونی عطا کر بیک وقت مقامی،قومی اور عالمی کردار عطا کرتا ہے۔وہ دبی اور غایب آوازوں اور مختلف حاشیوں پر ڈھکیل دئے گئے غیر موجود اور غیر حاضر (ABSENSE) اور خاموش (SILENCE)کردہ ذیلی اور ثانوی طبقات (۱)تانیثی ڈسکورس(مُخاطبہ)(۲) اقلیتی ڈسکورس (کلام) اور (۳) دلِت ڈسکورس (مُدلل بیانیہ) کی طرف بھی بھرپور توجہ مرکوز کرتا ہے۔ جو جارحانہ اکثریت پسندی، فرقہ پرستی، فسطائیت پسندی، دہشت گردی، بُنیاد پرستی،سامراج پسندی،سرمایہ داری،بورژواژی اور بازار پسندی کے باعث سگِ پا (UNDER DOG)میں منقلب کردیے گئے ہیں۔ اُردوئی ما بعد جدید یت کا میلان اُن کے بد حال آثار،علائم،نشانات،کوائف اور مختلف کثیر اُصوات کو دیکھتا اور سُنتا ہے۔ تا ہم وہ اُس کے بر عکس فرسودہ اور سڑے گلے نظریات،باسی کڑھی کی اُبال کے مانند پھپھوند لگی تعمیمات،رسومیات اور ازکار رفتہ نیم جان عقائد و افکار پر بے محابا سُرخ سوالیہ نشان بھی لگاتا ہے۔ وہ زیادہ کُشادہ،جمہوری اور اِستبعادی(PARADOXICAL)کردار کا حامل ہے۔ وہ یکسانیت کے بجائے اِفتراق و اِلتوا(Differance)کو اہمیت دیتا ہے۔(عمران شاہد بھنڈر’فلسفۂ ما بعد جدیدیت میں شروع سے آخر تک نہایت علمیاتی لاپرواہی سے ’’اِلتوا اور اِفتراق‘‘ لکھتا ہے۔ اس کے معانی اور مفاہیم ہی اُلٹ جاتے ہیں۔ یہ اُس کی بُنیادی فاش غلطی،لا علمی اور جہالت کا اشاریہ ہے۔ وہ ما بعدجدیدیت ،پس ساختیات اور ردتشکیل کی ابجد سے نا وا قفِ محض ہے۔) یہ صحیح معنوں میں جدیدیت کا مُتبادل ہے۔ کلاسیکی مارکسیت بذاتِ خود جدیدیت کے ایوان میں ایک مُتبادل تھی۔ ما بعد جدیدیت میں کئی عالمی حیثیت کے نومارکسیت پسند دانشور بھی ہیں۔ در حقیقیت ما بعد جدید تکثیریت کے تصوّر کی اپنی بُنیادی شرط کے مطابق ما بعد جدیدیت میں مُتبادلات کی کثرت ہے اور نو کشادہ مارکسی تنقید بھی اُن میں ایک ہے۔ ویسے تو آزادی کوش نظریات کی پوری رنگ مالا ہی اُس کے پیش منظر میں ہے۔ یہ آزادی جوئندہ (EMANCIPATORY) تھیوری ما بعد جدیدیت کو بڑی انقلاب انگیز دھار اور کاٹ عطا کرتی ہے۔اُردوئی ما بعد جدیدیت کے مُتنوّع اور بو قلموں نظریات اور تصوّرات آج اُردو ادب اور تنقید کو مالا مال کر رہے ہیں۔ یہ پچھلی تحریکات کے مانند ایک واحد رویہ اور نظریہ کے علمبردار نہیں ہے بلکہ یہ متعدد نئے نظریہ ہائے نقد کا انکشاف کرتی ہے۔
اُردوئی ما بعد جدیدیت کے بنیاد گزار پروفیسر گوپی چند نارنگ کی محبوبیت اور مقبولیت سے غیر معمولی حسد کے باعث ادھر کئی شخصیت کُش اور کردار شکن لچر کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ یہ بھی منصوبہ بند سازشی معاملہ ہے لیکن یہ بھی سورج آسا سچّائی ہے کہ وہ مابعدجدیدیت کے طوفان میں اُڑ کر غائب ہو رہی ہیں۔ اُنھیں میں عمران شاہد بھنڈر کی مغربی تناظر میں ’فلسفۂ ما بعد جدیدیت‘ خالص علمیاتی اوسط زدگی،نیم فلسفیانہ سطحیت،مشکوک و غیر مرتب فلسفیانہ سمجھ،فکری پلپلے پن،اقداری کھوکھلے پن،غلیظ و کریہہ لجلجی ذہنی رعونت، انتہائی گھٹیا اور رذیل نا رواداری، مخاصمانہ عیب جوئی،شخصیت کُشی، کردار شکنی اور افترا پردازی کی شکار بے مغز اور بے مایہ کتاب ہے۔ اس زرد دو لخت نام نہاد مُتعلمانہ فلسفیاتی کتاب میں کُلّی صداقت تو کیا جُزوی صداقت کی رمق بھی موجود نہیں ہے۔ ’فلسفۂ ما بعد جدیدیت ہوائی خلائی جھوٹ کا مضحکہ انگیز سچ ہے۔ جس جھوٹ کا رنگ جتنا ہی کوڑھ کے مانند سفید ہو، وہ دُنیا داری میں اُتنا ہی تیر بہدف اور چلتا ہوا دبنگ تصوّر کیا جاتا ہے۔ گاندھی جی نے صداقت کے ساتھ جتنے تجربات کیے تھے عمران شاہد بھنڈر نے اُس سے کہیں زیادہ اکیسویں صدی کے سب سے ’’بڑے جھوٹ‘‘ کے ساتھ غیر اخلاقی اور بد عنوان تجربات کیے ہیں۔
دُنیائے ادب کے اندیشے میں مُبتلا قاضی اُلقضایہ نام نہاد شمس الفضلا کے حمّام کا یہ خرِ نا مُشخّص ذہنی ایذا دہی اور نفسیاتی ایذا پسندی کے مرض میں مُبتلا بد ترین نرگسیت کا چلتا پھرتا اشتہار ہے۔ گدھا ہزار بار حج کرنے کے بعد بھی حاجی نہیں ’نازی گدھا‘ کہلانے کے خبط کا قتیل ہو سکتا ہے۔ کہاوت ہے کہ پٹھانوں کی عقل گُٹھنے میں ہوتی ہے اور بھنڈروں کی عقل ٹخنے میں ہوتی ہے۔ اب بدنامِ زمانہ محاورہ ’مارو ٹخنہ پھوٹے آنکھ ‘کے مصداق عمران شاہد بھنڈر کُل اُردو ادب کی آنکھ کو پھوڑنے کے زُعم میں یکسر مخبوط الحواس ہو گیا ہے۔ اُس کو نہیں معلوم کہ گوپی چند نارنگ کی تیسری آنکھ (شیو نیتر) دھیان گیان کے باعث متحرک اور بیدار ہے اور وزیر آغا کی تو ’چوتھی آنکھ‘ بھی وا تھی۔جو ’قدم کی آنکھ‘ ہے۔ وہ بیک وقت ’چشمِ جاں‘ اور’ چشم اللہ ‘ہوتی ہے۔ یہ لوگ’قیدِ فکر و نظر‘ (PHILOSOPHIA) سے آگے ’آزادئی فکر و نظر‘ (PHILOSIA) کے عارف ہیں۔ جس سے عمران شاہد بھنڈر اپنی بد ترین ادبی مُحسن کُشی اور فکری احسان ناشناسی کے باعث ابھی تو قطعاً محروم ہے۔ وہ اپنے جذباتی شور و شر اور طالبانی بُت شکنی کے مُجاہدانہ زُعم میں وزیر آغا کے مرحوم ہوتے ہی وہ اُن کے خلاف بھی تیغ زن ہو گیا ہے جب کہ اُن کی زندگی میں اُن کی قدم بوسی کو وہ اپنے لیے باعث فخر و ناز تصوّر کرتا تھا۔
مصلحت باختہ ہوا گیر اور ہنگامہ گیر بھنڈر کی جعل سازیوں کے شکار حیدر قُریشی نے اپنے ’عمر لا حاصل کے حاصل‘ عمران شاہد بھنڈر کا جعلی تعارف نامہ اپنے جریدے ’جدید ادب‘ میں تحریر کیا تھا کہ وہ ما بعد جدیدیت کی ادبی تھیوری پر ڈاکٹریٹ کر ہا ہے جب کہ ڈاکٹریٹ کیا وہ تو جاہل محض ہے۔ اس کو تو اتنا نہیں معلوم کہ ما بعد جدیدیت ثقافتی تھیوری کی علمبر دار ہے ۔ ادبی تھیوری تو فی زمانہ شہرِ ادب سے باہر ریٹایرڈ معشوق جدیدیت کی تھیوری تھی جو اوّل و آخر صرف ہیئتیت کو ہی مسجود سمجھتی تھی اور سماجی ثقافتی اقتصادی اور سیاسی تناظر کو اپنی ’’نگاریں چمّ و خم اور سگاریں زُعم کے سبب قطعاً غیر ادبی او ر غیر فنّی بدعت تصّور کرتی تھی۔ گوپی چند نارنگ نے تو ہندوستانی، تواریخی، عمرانی، ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی تناظر میں ’اُردوئی ما بعد جدیدیت‘ کی طبعزادانہ طور پر تخلیق، تشکیل اور تعمیر کی ہے(اُن کا سارا کام ہی اُردوئی ثقافت پر ہے)۔ اُس میں اُردو کی پوری ما بعد جدید نسل کے شاعروں،افسانہ نگاروں اور ناقدوں کا خونِ جگر شامل ہے۔تمام خواتین قلمکاروں کا خونِ جگر بھی کارفرما ہے۔ اس خورشید آسا صداقت کی شاہدِ عادل نارنگ کی مرتب کردہ اہم اور معنی خیز راہ نُما کتاب ’اُردو ما بعد جدیدیت پر مکالمہ ‘ ہے۔ اس ضمن میں اُن کا دسمبر ۱۹۹۵ء کا غالب اکادمی سلور جُبلی توسعیی خطبہ ’ترقی پسندی ،جدیدیت، ما بعد جدیدیت،’ادب کا بدلتا منظر نامہ‘،سیمینار کا کلیدی خُطبہ ’ما بعد جدیدیت اُردو کے تناظرمیں‘،’ما بعد جدیدیت کے حوالے سے کُشادہ ذہنوں اور نوجوانوں سے کچھ باتیں ‘خصوصی طور پر قابلِ ذکر و فکر ہے۔ بعد کے یہ دونوں مقالات تو پہلے سہ ماہی ’نیا ورق‘ ممبئی میں ہی شائع ہوئے تھے۔ البتہ انھوں نے صرف ’علمیاتی بصیرتوں‘ کو پوری دُنیا کے تنقیدی ادبیات سے اپنے عالمی اورقومی سیاق و سباق میں نہایت تنقیدی اور بصیرتی تمیز و تہذیب کے ساتھ اُردوئی ما بعد جدیدیت میں استعمال کیا ہے۔ اس سلسلے میں اُن کا معنی خیز اہم آرٹکل ’ما بعد جدیدیت عالمی تناظر میں ‘اس خورشید نیم روزی صداقت کا گواہ ہے۔ نارنگ کے ان تمام مقالات میں اُن کی منفرد تنقیدی بصیرت اور تخلیقی تخیّل کا بھر پور استعمال ہوا ہے۔ اُن کے اندر مختلف عالمی،مقامی اور قومی افکار کی تفہیم،تعبیر،تفسیر،تنویر اور معروضی تجزیہ کاری کی فکری اہلیت ہے۔ اس غیر معمولی تنقیدی لیاقت کی عملی اور اطلاقی کارکردگی کا مظہر اُن کا مقالہ ’کیا تنقید کی بدلتی ترجیحات اور رویہ ہمیشہ نظریاتی اور اقداری نہیں ہوتے؟‘ ’اطلاقی تنقید:نئے تناظر‘مرتبہ گوپی چند نارنگ خصوصی طور پر معرکہ آرا ہے۔ جو اُن کی ادبی اخلاقیات،تعقلات اور اطلاقیات کی بھرپور ترجمان ہے۔ محولہ بالا ان دو کتابوں کی بُنیاد پر واقعتاً اُردو ادب میں ایک وقیع اور فکر انگیز مکالمہ شروع ہوا۔ اس معنویات افروز مخاطبہ کا جشنِ عالیہ ابھی تک قائم و دائم ہے۔ معاصر رجحان ’اُردوئی ما بعد جدیدیت‘ پر دہلی اردو اکادمی اور ساہتیہ اکادمی متعدد سیمینار پہلے ہی کرا چکی ہیں۔ اُسی قدر اہم اور معنی خیز کتابیں بھی شائع ہوکر منظرعام پر آچکی ہیں۔
ان تمام زندہ،تابندہ اور پائندہ، لطیف اور رفیع تر تنقیدی اور ادبی حقائق سے نا واقف صرف نیم فلسفیانہ کج مج مغربی تعصبات و تاثرات سے مسحور اور مغلوب عمران شاہد بھنڈر اپنے نابالغ ذہنی زُعم اور جذباتی شور و شر میں مغربی تناظر میں خام مغربی’ فلسفۂ ما بعد جدیدیت‘اُردو کے قارئین کے لیے نہایت غیر سنجیدگی اور پھوہڑ پن سے پروس رہا ہے۔وہ شائد مغربی فلسفہ میں محض متعلمانہ سطح پر ایم ۔فل (1)تو کیا ایم اے بھی نہیں۔
(۲)
گوپی چند نارنگ نے نئی تھیوری کے مفکرین کی نئی بصیرتوں کا سنسکرت شعریات کے مفکرین کے فلسفیانہ اور مفکرانہ بصائر کا جو لطیف اور رفیعی تقابلی مطالعہ کیا ہے اور اُس کے عمیق تحلیل و تجزیہ سے جو نئے فکریاتی نتایج اخذکئے ہیں، وہ یکسر صاف و شفّاف نئے علمیاتی نتائج ہیں۔ وہ ما بعد جدید عالمی تنقید کی نو فکریاتی نتائجیت (NEW PRAMATICES) میں بھی قابلِ ذکر و فکر ہے۔ اُن نتائجیہ جہات(NEW PRAMATIC DIMENSION)سے انکار کرنا یکسر فکری بد دیانتی ہے۔ ادب میں ایک انچ کا اضافہ صدیوں میں ہوتا ہے۔ اِس بوطیقائی نُکتہ سے محرومِ بصیرت عمران شاہد بھنڈر ابھی قطعاً نا واقفِ محض ہے۔ وہ ما بعد جدید تنقید کے خاصانِ خاص بُصرا کے لیے بھی شئے لطیف ہے۔ ادبی دہشت پسندی کے اصلی سرغنہ کے نمائندہ نا بالغ ذہن بھنڈر کی بے بُنیاد غیر تنقیدی اور غیر ادبی اٹکلوں اور افواہوں سے بھڑکیلی اور بھڑکاؤ سنسنی خیز قابلِ فروخت نیوز تو بن سکتی ہے لیکن اُس میں حقیقت خُود کُشی کرتی ہے۔ صداقت ،انصاف اور تواریخی قوتیں گوپی چند نارنگ کے ساتھ ہیں۔ اُن میں پیچھے پن کی جانب جانے کے بجائے ہمیشہ نت نئے پن کے لیے ذہنی کُشادگی اور زبردست فوکس ہے۔ بھنڈر اپنے مٹّی کے پیروں پر کُلہاڑی مارنے میں چھوٹا اُستاد ہے۔ ایک دن اُس کو پتہ چلے گا کہ وہ ’وِدراوے‘ ہو گیا ہے۔ نارنگ نے طرزِ کہن پر اڑنے اور آئینِ نو سے ڈرنے کے بجائے اُردو ادب کو تنقید کا نیا ماڈل عطا کر دیا ہے۔نتیجتاً نہ صرف ہندو پاک بلکہ اُردو کی نئی بستیوں میں نارنگ کے نام کا ڈنکا بج گیا ہے۔ نارنگ نے اپنے نو تواریخ ساز مقالے’ تنقید کے نئے ماڈل کی جانب‘ کے اختتامیہ پر نہایت دور اندیشی سے حاضر اور نیم حاضر حاشیہ بوس اور حاشیہ پوش مُقتدرات کی رذیل ترین سازشوں اور بارودی سُرنگوں سے بچنے کے لیے دافع بلّیات الطاف حسین حالی کا نسخۂ نجات یا رُقعۂ آخرہ چسپا ں کر رکھا ہے۔
’’لیکن اگر صرف غلطیوں کے دکھانے پرہی اکتفا کیا جائے اور خوبیوں کوبہ تکلّف بُرائیوں کی صورت میں ظاہر کیا جائے تو بھی ہم اپنے تئیں نہایت خوش قسمت تصوّر کریں گے۔‘‘
(صفحہ ۵۷۳،ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات : گوپی چند نارنگ)
بڑی دُور رس تخلیقی بصیرت اور تنقیدی ویژن پہلے سے ہی بڑی دُور رس پیش بندی اور زائچہ بندی کر لیتی ہے اور ہر نوعیت کے منفی رویوں کو اپنی ادبی زندگی کی پوری کھلاوٹ کے لیے اُنھیں زر خیز کھاد میں منقلب کر لیتی ہے۔ تھیوری کے فکریاتی مسئلہ کو نارنگ نے قدیم ہندوستانی شعریاتی روایت کے وسیع تر پس منظر میں اُس کے مختلف فکری پہلوؤں کی تائید اور تردید کا غیر معمولی تجزیاتی مُحاسبہ کیا ہے۔ اُس سے ہمیں مستقبل میں مشرقی اور مغربی بوطیقائی روایات کے ما بین باہمی فکریاتی تعامُل کی ضرورت محسوس ہو گی۔مزید براں ہمیں ایک عظیم اور قدیم تر لسان (Langue)کی وساطت سے دونوں مُخاطبوں کے ناقابلِ تقسیم ہونے کا بھی احساس اور عرفان ہوگا۔جس سے دو عظیم تر شعریاتی روایات اپنے اپنے مخصوص طریقوں سے نئے سوالات اورمکالمات(PAROLE) کا اپنے مخصوص تناظر میں حل تلاش کرنے کی اہل ہو سکیں گی۔
عمران شاہد بھنڈر کا بے سروپا فلسفیاتی مقدمہ تو اُسی وقت خارج ہو جاتا ہے اور اُس کی لا یعنی کتاب بھی ساقطِ المعیار ہو جاتی ہے، جب یہ نیو کلیائی انکشاف ہوتا ہے کہ نارنگ نے تو ہندوستانی تناظر میں ’اُردوئی ما بعد جدیدیت‘ کی طبعزادانہ اور خلّاقانہ طور پر تخلیق،تشکیل اور تعمیر کی ہے اور ’اُردو ما بعد جدیدیت پر مُکالمہ‘ نام سے ایک اہم کتاب بھی مُرتب کی ہے۔اُس پر ایک عظیم الشان کُل ہند و پاک سیمینار بھی منعقد کرا چکے ہیں۔ عمران شاہد بھنڈر کی دُکھتی مُتعصبانہ یرقان زدہ آنکھیں اس سورج آسا حقیقت کی تاب نہیں لا پاتی ہیں۔ وہ اپنی ژولیدہ کتاب ’فلسفۂ ما بعد جدیدیت‘ میں ’اُردو‘ لفظ کو نہایت شیطانیت سے اُڑا کر محض ’ما بعد جدیدیت پر مُکالمہ‘ کا نہایت شاطرانہ طور پر بار بار استعمال کرتا ہے۔ اُس کی ذہنی بد دیانتی اور ریا کاری کا یہ عبرت ناک عالم ہے کہ آخیر میں اپنی کتاب کے ’حوالہ جات‘ میں بھی مزید غلط فہمی پیدا کرنے کے لیے صرف ’ما بعد جدیدیت پر مُکالمہ‘ کا ہی اندراج کرتا ہے۔ (حوالہ جات صفحہ ۴۷۵،فلسفۂ ما بعد جدیدیت) ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مہا جھوٹ کی دھُول کی رسّی بٹنے والا تارکِ ذہن،تارکِ شعور اور تارکِ ایمان شخص ہے اور اپنے پیر و مرشد شمس الفضلا کے مانند ہی کافور خور فاطن ہے۔وہ اپنی گھسی پٹی عیّا رانہ سوچ کی بِل سے باہر نہیں آتا ہے۔نفسیاتی طور پر یہ سفید جھوٹ کی رسّی اُس کو شدید احساسِ جرم کی وجہ سے بے محابا ڈس کر بے نیل و مرام کر گئی ہے۔ وہ نارنگ شکنی کے واہمہ اور فریبِ نظر کا شکار ہو کر خود شکنی اور خُود افگنی کا مُرتکب ہو گیا ہے۔ یہ نفسیاتی خُود کشی کے مُترادف ہے۔
عمران شاہد بھنڈر اپنی انانیت گزیدہ کتاب میں بار بار اپنی فکری بے دست و پائی اور اخلاقی شکست خوردگی کے باعث اپنے مضمحل اور مدقوق غیر معروضی ذاتی عصبیتوں اور قضیوں کو نہایت جذباتی اور ہذیانی انداز میں پیش کرتا ہے۔ تاہم وہ مقدمہ ہارے ہوئے نفسیاتی مریض اور اوہام گزیدہ شخص کے مانند اپنی کتاب میں بار بار پیترے بدل بدل کر ایک ہی بات کو دُہرا رہا ہے کی نارنگ مُترجم ہیں یا سارق! اُس کا نیک خیال ہے کہ کاذبانہ طور پر تکرارِ محض کی سمع خراشی سے اُس کی مفروضہ اور واہمہ زدہ من گھڑت بات سچ مان لی جائے گی۔ اس بے بُنیاد الزام تراشی کے بر خلاف نارنگ نہ تو مترجم ہیں اور نہ سارق۔ وہ نت نئی ’ادبی بصیرتوں کے اوّل و آخر جوئیندہ و یابندہ ہیں۔ وہ اُن کو اپنے اُردوئی تناظر میں منقلب کرنے والے ایک اہم اور منفرد نظریہ ساز اور کیمیا گر ہیں۔اُن کو مٹّی کو سونا بنانے کی خوش ہُنری اور خوب ہُنری آتی ہے تو ہی ’ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘نئی اُردوئی بوطیقا کے روپ میں وجود پذیر ہوئی ہے اور اُس کو قبولیت اور محبوبیت بھی نصیب ہوئی ہے۔ نارنگ کے اس غیر معمولی فکریاتی کیمیائی عمل سے اُردوئی تناظر کو،ہندوستانی تناظر کو اور دیسی تناظر کو یکسر نئی شاداب زندگی اور نئی سر سبز روح نصیب ہوئی ہے۔ نارنگ اپنی نت نئی بصیرت جوءِندگی اور یا بندگی کے باعث فی زمانہ ہندوستانی ما بعد جدید تناظر میں ’نئے عہد کی تخلیقیت ‘تک پہنچ گئے ہیں، جس سے عمران شاہد بھنڈر کے فرشتے بھی ابھی تک نا واقفِ محض ہیں۔ جیسے پنڈت رتن ناتھ سرشار کے ’فسانہ آزاد ‘ میں بات بات پر ’افیون زدہ خوجی‘ ’’لانا تو ذرا میری قرولی‘‘ کا افیونی نعرہ بُلند کرتا تھا، بعینہ ’’سرقہ کی نفسیاتی مشروطیت کا شکار‘‘ بھنڈر اپنی کتاب میں بار بار ’’لانا تو ذرا میرے سرقہ کا تڑکا‘‘ کا آسمان کی طرف اپنا منھ بلند کر بے تکان بھونکتا چلا جاتا ہے، جیسے ہوا اور خلا میں مسلسل صوتی نقش بافی کر رہا ہو جس کااوّل و آخر مقدّر فنا ہے۔
اس کوتاہ نظر اور کوتاہ بیں بھنڈر کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ اُس میں باقاعدہ اُردو ادب شناسی اور اُردو ادب فہمی قطعاً کمیاب تو کیا نایاب ہے۔ وہ پوری والہانہ جذباتی سُپردگی اور ناقابلِ تسخیر پورے حوصلے اور ولولے کے ساتھ نارنگ کے مانند معاصر اُردوئی شعر و ادب اور تنقید و تحقیق کے منظر نامہ میں قطعی شریک نہیں ہے بلکہ وہ اُن سے بالکل نا بلد ہے۔ اب وہ خود ہی اپنے اُستاد معنوی حیدر قریشی کے لکھے ہوئے اپنے مختصر فرضی تعارف نامہ کو مسترد کر اپنا باقاعدہ تعارف کرا رہا ہے کہ اُس نے ۲۰۰۷ء میں ’فلسفۂ انگریزی ادب میں‘ ایم۔اے کیا ہے اور ۲۰۰۹ء میں سُولی ہل کالج سے ایجوکیشن میں سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کے بعد برطا نیہ میں ہی شعبۂ تعلیم سے وابسطہ ہو گیا ہے۔(2)
شعبۂ تعلیم میں گھٹنے کے بل چلنے والا،شعبۂ تعلیم کی ہمالیائی چوٹی ہمادری گوپی چند نارنگ کی شان میں گُستاخی کرنے والا، ادب کے ساتویں آسمان پر تھوکنے کی بیجا جسارت کرنے والا بھنڈر آج خود اپنے اُوپرواپس ہوتے ہوئے تھوک کو بار بار نگل اور اُگل رہا ہے۔اُس کی بچکانا اور طالب علمانہ تعارفی کتاب مغربی تناظر میں فلسفۂ ما بعد جدیدیت اُس کی بچکانی فکریاتی جُگالی کی اُگالدان ہے۔اِس پیک دان میں تو اپنے موضوع کی روشناسی بھی نہیں کار فرما ہے۔ صحیح علمیاتی روح شناسی کے لیے تو اُس کو ’دوسری پیدائش ‘ درکار ہے۔
(۳)
صحیح تر علمیاتی روح فہمی کے ضمن میں نارنگ کا فکریاتی عطیہ یہ ہے کہ انھوں نے ما بعد جدید اور ما بعدنوآبادیاتی عہد کی ترجیحات کا حقیقی احساس و عرفان حاصل کرتے ہوئے ما بعد جدید دور کے اصل مسائل کو ہندوستانی تناظر میں جاننے اور پہچاننے کا پہلی بار ٹھوس قدم اُٹھایا ہے۔ جب کہ اُن کے دوسرے ترقی پسند اور جدیدیت پسند معاصرین اپنے اپنے مخصوص اور محفوظ گھونسلوں میں منقارِ زیر پر تھے۔ اس فکریاتی پیش قدمی نے معاصر اُردو ادب اور اُردو تنقید کو ادراک معنی کا عظیم الشان منظر نامہ فراہم کر دیا ہے۔ اس نئے ڈسکورس(مُخاطبہ) کا درخشاں نتیجہ ہے کہ ہم عالمی ادب اور تنقید کا ہی نہیں بلکہ اپنی زندہ اور متحرک روایت،تاریخ،ادب و ثقافت اور تمام برصغیری زبانوں کا اکیسویں صدی کے نئے تناظر میں از سرِنو تنقیدی مُحاسبہ اور مُحاکمہ کر سکنے کے اہل ہوتے ہیں۔ اس کے بر عکس مغربی تناظر میں بھنڈر کی فلسفۂ ما بعد جدیدیدت، کاغذ، قینچی اور گوند کی کرشمہ سازی سے تیار کردہ مُنتشر تنقیدنگاری کا نظر بند اور فریبِ نظر پرور طلسماتی ایبسرڈ تھیٹر ہے۔ اُس میں باز گزیدہ نقطۂ نظر سے نئے مغربی اور مشرقی فلسفیانہ نظام کے کُشادہ اشتراک اور جامع اِفہام و تفہیم کے موزوں اور مناسب نقطوں کو نہایت کور نظری سے جارحانہ طور پر نظر انداز کیا گیا ہے اور دیدہ و دانستہ شباہتِ کِذبی(SIMULCRA) کے ذریعہ مصنوعی،فرضی اور جعلی سرقہ اندوزی کا بے بُنیاد مقدمہ’پوشیدہ سازشی مفادات‘ کے تحت گڑھ کر ادبی دہشت خیزی، جماعتی فرقہ واریت اور طالبانیت و لشکریت کو فروغ دیا گیا ہے۔ نارنگ نے اُردو دُنیا کی علمیاتی فیض رسانی کے لیے ’ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ کے مصادر کتاب (کتابیات) پر ’ستارے کے نشان‘ منقوش کر دیے ہیں۔ اُس سے مُراد یہ ہے کہ وہ مآخذ جس سے بطور خاص استفادہ کیا گیا ہے۔ نارنگ کے اس غیر معمولی اخلاقی احسان اور امداد کو یکسر نظر انداز کرکے بھنڈر نے اس نام نہاد فلسفیاتی جنگ نامہ میں اس ’ستارے کے نشان‘ سے نارنگ کے خلاف اسٹار وار شروع کر دی ہے۔ یہ ایک اچھّی اور معنی خیز روایت کو مُنہدم کرنے کی غیر انسانی رذیل ترین شخصیت شکن اور کردار کُش کوششِ ناکام ہے۔ اس مجنونانہ اور کاذبانہ شباہت افروزی کی رنگ بھومی میں نیم بلوغت زدہ فکریاتی سُراغ رسانی اور بیکار کی میلوڈرامائی جارحیت کی ڈان کویکزیٹی رزم آرائی کے احمقانہ مظاہر نہایت بے ڈھب اور لچر ڈھنگ سے مرتب کیے گئے ہیں۔(3)یہ کہیں کے نام نہاد فلسفیاتی اینٹ اور کہیں کے علمیاتی روڑے کا مضحکہ انگیز غیر فکریاتی اور غیر فلسفیاتی بھانو متی کا پٹارا ہے۔ یہ ادھ کچرے اور دو لخت فلسفیانہ سیلانِ شعوراور یہاں وہاں سے مسروقہ مضحکہ خیز سرقہ آرائی کا نام نہاد فکریاتی رزم نامہ ہے۔ بھنڈر کی پوری غیر علمیاتی فاضل اور فضول کتاب ترسیل کے المیہ کا بد ترین کنسُرا بھونپو ہے۔ وہ اپنے شمس الفضلا کی ’ہز ماسٹر وائس‘ ہوکر خاصہ مُضحک ہو گیا ہے۔ اُس کی مضحکہ انگیز کج مج گُنجلک تحریر کا صرف ایک سبُک اور رکیک نمونہ خاطر نشیں ہو۔ جو اُس کی پوری فضولیاتی اور فلسفیاتی کتاب کی ژولیدہ اور مُنحنی تحریر کی نُمائندگی کر رہا ہے :
’’ مغربی سامراج ’بُعد‘ کے اس گھناؤنے عمل کا انہدام نہیں ،اُس کا تسلسل چاہتا ہے۔ وہ ’بُعد‘ کے اس تضاد کو حل نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ وہ خود ’بُعد‘ کا شکار ہے۔ ’بُعد‘ اُس کے لیے ازلی حقیقت کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ ’بُعد‘ اُس کے وسط میں بھی موجود ہے۔ جب کہ اُس کا انہدام کُل بحران کے حل کی جانب پہلا قدم ہے۔‘‘
(صفحہ ۴۷۲،فلسفۂ ما بعد جدیدیت)
ہمہ صفت موصوف میں تذکیر اور تانیث شناسی تک کی حس معدوم ہے۔
نعش خورگدھ کی نگاہ ہمیشہ مُردار پر ہوتی ہے۔ اس خار پُشت(کانٹے دار) نیم مُردہ چوہے کی کم نگاہی(MYOPIC VISION)آج بھی کلاسیکی مارکسیت پر مرکوز ہے۔ فی زمانہ عالمی اور قومی تناظر میں اُس کی دھجّیاں اُڑ گئی ہیں۔ آج دُنیا کے نقشے سے کلاسیکی مارکسیت غائب ہو گئی ہے۔ سویت روس جس کی ایک گھُڑکی پر امریکہ کی سٹّی پٹّی گُم ہو جایا کرتی تھی، وہ ایک معمولی سا مُلک رہ گیا ہے۔ مشرقی یورپ کے آمرین تنکے کے مانند ہوا میں اُڑ گئے ہیں اور سب سے بڑی بات جو مارکسیت فیشن ہوا کرتی تھی، (اور جو اوّل و آخر روایت گزیدہ ترقی پسندی کا پیمانہ تھی) وہ اکیسویں صدی کے ما بعد جدید تناظر میں آؤٹ ڈیٹیڈ،ذہنی دْقیا نوسیت،عملی مجہولیت،افیونیت اور جمود کی بدترین علامت بن گئی ہے، خود ہندوستان میں یہ شعور سوز سورج آسا سچائی ہے کہ کلاسیکی کمیونزم کے گڑھ مغربی بنگال اور کیرل میں کمیونسٹ مورچہ کو ملی انتخابی شکست کے بعد تقریباً وہی کفن آلود ماحول ہے جیسا کہ ۱۹۹۱ء میں سویت یونین کے زوال کے بعد تھا۔ آج مارکسیت مُخالفین کے جوش و خروش کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ اُن کی رائے میں اب بائیں بازو کی سیاست کو ایسی پٹخنی مل گئی ہے کہ اُس کا پھر سے اُٹھنا دُشوار ہے۔ درحقیقت کلاسیکی کمیونسٹ فکری نظام کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ کمیونسٹوں کو اظہار اور سیاسی عمل کی آزادی صرف اپنے لیے چاہئے۔ یعنی جب وہ اقتدار کی مُخالفت میں ہو ں لیکن خود اقتدار میں آنے کے بعد وہ یہ آزادیاں دوسروں کو ہرگز نہیں دینا چاہتے۔مزید عبرت کے لیے بھنڈر کا ایک اور اقتباس خاطر نشان ہو۔ اس سے اُس کی ذہنی کوتاہئی پرواز اور محدود فکری رینج کا اندازہ ہو گا :
’’ تیسری دُنیا کے پسے ہوئے عوام کو یہ جنگ اجتماعیت کی بُنیاد پر لڑنی ہے۔ اگر مُمکن ہو سکے تو فرانز فینن کے فلسفہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی دفاع اور اپنی بقا کے لیے تشدد کا دامن تھامنا ہے۔ یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ تشدد اور دہشت سامراج کے ہتھیار ہیں۔ سامراج اپنے عہد کے اعلیٰ ترین سائنسی علم و ٹکنک کو قتّال کے عمل کو ممکن بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ تیسری دُنیا کے عوام کو تشدد کا جواب دینے کے لیے ’مہاتما گاندھی کی منافقت پر مبنی مکروہ اخلاقیات‘ کا سہارا لینے کے بجائے ایک سچّے انقلابی کے مانند لڑنا ہے۔ اس عمل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس تھیوری کو وضع کرنا ضروری ہے جو اجتماعی مفاد کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ جسے سماج کے حقیقی تقاضوں یعنی انسان کے عمل کی سطح کو سامنے رکھ کر وضع کیا جائے اور وہ عمل میں اپنی سچّائی کو ثابت کرے۔ عہد حاضر میں جنم لینے والی یہ محرومی مادی جدلیت کے علاوہ اور کوئی فلسفہ سر انجام نہیں دے سکتا ہے۔ یہی ایک ایسا فلسفہ ہے جسے کسی بھی طوفان،بدلتی صورتِ حال اور اقدار کی شکست و ریخت سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ سماجی تغیّر ہی سے اُس کی نشو نُما ممکن ہو سکتی ہے کیوں کی تغیّر ہی اُس کی روح ہے۔تیسری دُنیا کے استحصال زدہ لوگوں کے پاس اپنی بقا کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔‘‘
(فلسفۂ ما بعد جدیدیت: ص ۴۷۴)
اس نہایت کٹّر و مُتشدد اور اندھے بند راستے کے بر خلاف صحیح معنوں میں ما بعد جدید ادب اور تنقید کو نئی کُشادہ مارکسیت (NEW OPEN MARXISM) نئی نتائجیت(NEW PRAMATICES)اور ثنوتیت(BINARISM)نے نہایت آزادانہ طور پر پروان چڑھایا ہے۔ اُس کی اساس تکثیری فلسفوں پر اُستوار ہے۔ وہ اپنی ماہیت میں بُنیادی تغیّر پسند(RADICAL)ہے۔ وہ علمی اور اخلاقی نوعیت کی بھی امین ہے۔ جو معاصر زندگی،تہذیب و تمدّن کی تکثیریت کو نمایاں کر ہرنوعیت کے افتراقات کو بھرپور طور پر عیاں کرتی ہے اور بیک وقت فکر و فن کی نئی جہات، مُضمرات اور مُمکنات کو فروزاں کرتی ہے۔اُردوئی ما بعد جدیدیت بھی کسی ازم پرزور نہیں دیتی ہے اور اکیسویں صدی کے نئے عہد کی تخلیقیت کو یکسر آزاد کرنا چاہتی ہے۔ مغرب کے نو مارکسی ناقدین اور اُدباء اس شِق کی معنویت کو خوب سمجھتے ہیں اور اُن کے یہاں ایسے سیّال تخلیقی رویے اور برتاؤ کے تسلیم کرنے میں کہیں کوئی دُشواری حائل نہیں ہے۔ اُس کا غالب سبب یہ ہے کہ مارکسی فکر کا جوہر اصل نو کُشادہ مارکسی فکریات میں منقلب ہو کر حقائق کی نئی صورتیں پیش کر رہا ہے۔(4)
عمران شاہد بھنڈر ما بعد جدیدیت کے سمندر کا ساحل بوس اور ساحل پوش ادنیٰ تماشہ گر تیراک ہے۔ مثلاً وہ اپنی پوری کتاب میں بار بار مستقل طور پر لا تشکیل کی تھیوری یا فلسفیانہ لا تشکیل کا نہایت غبّیانہ طور پر استعمال کرتا ہے۔یہ بُنیادی احمقانہ فرو گذاشت ہے جو شمس الرحمٰن فاوقی، قاضی افضال حسین سے بھنڈر تک کرتے ہیں۔ در حقیقت یہ تمام لوگ دارُالاحمقا میں محض ذوقِ تماشا کے خو گر ہیں اور سچّے غواص نہیں ہیں۔ اُن کی ذہنی حماقتوں کے بر خلاف بُنیادی شِق یہ ہے کہ اگر لسانی تشکیل (LINGUISTIC ICON)نہیں ہو گی تو ردِ تشکیل کس کی کی جائے گی؟ ’’لا تشکیل‘‘ بنیادی طور پر قطعاً غلط اور بے معنی اصطلاح ہے۔ آپ کیسے اکبری تحریر(ARCH WRITING)تک پہونچئے گا جو ردِتشکیل کی منزلِ مقصود ہے۔ اب تو(SUPRA ARCH WRITING)کو بھی کھوج نکالا گیا ہے۔ پھر ڈی کنسٹرکشن کے معنی فرانسیسی زبان میں’’نئی معنویات کی طرف‘‘ ہے جس سے ژاک دریدا کے بیشتر انگریزی کے مترجم بھی چوک گئے ہیں۔ بھنڈر کی فلسفۂ ما بعد جدیدیت میں تو سرے سے اکبری تحریر کا تذکرہ بھی نہیں ملتا ہے۔ بُنیادی مبادیات سے ناواقفیت کے باوجود بھی اُس کے شکستہ و ریختہ اور دو پارہ(اسکیزو فرینک)فلسفیانہ دعاوی آسمان گرد ہے۔ نتیجتاً اُس کا انجام اوّل و آخر پشیمانی صد پشیمانی ہے یا اُس کے اپنے رول ماڈل شمس الفضلاکے مانند چرکین کی برازیات اور امیر حمزہ و عمر و عیار کی صاحبقرانی،ریاکاری،عیّاری و مکّاری کی پناہ گاہوں میں رو پوشی ہے۔


(۴)
اکیسویں صدی کے ما بعد جدید منظر نامہ پر اُردو کے اَپ ٹو ڈیٹ با خبر،با شعور اور با ذوق قاری کے لیے بھنڈر کی ’فلسفۂ مابعد جدیدیت‘ نہایت پیچیدہ،گُنجلک،غیر مرتب اور مضحکہ انگیز غیر تحقیقی اور غیر تنقیدی کتاب ہے۔ جو اُس کے غیر منظم یونیورسٹی نوٹس اور نصابی نوعیت کے خام مواد (کلاس میں دیے جانے والے "Notes & Queries") کی غیر منطقی پیوند کاری سے وجود میں آئی ہے۔ اس ڈھیلی ڈھالی مسکی ہوئی پیوند کاری میں بھی غیر متعلقہ واہی تباہی باتوں کی بھر مار ہے۔ جن کا بُنیادی مسئلہ سے کوئی رابطہ ہی نہیں ہے۔ اس غیر متعلق بیانیہ رپورٹنگ میں علمیاتی صداقت کا فقدان ہے۔اُس کا عندیہ ہی اسفل ہے۔ جونیتھن سوئفٹ کی بابت جارج آرول نے اظہارِ خیال کیا ہے کہ وہ انسانی معاشرہ اور انسانی فطرت کے مشاہدہ کے ضمن میں جزوی طور پر اندھا تھا۔ اُس نے آدمی کے منفی ،نحوست آگیں،ظلمت پسند رویہ اور غلیظ ابتدال پرور برتاؤ اور عمل کو ضرور دیکھا تھا۔ مگر اُس نے کبھی بھی انسان کے لطیف اور رفیع پہلو کو دیکھنے اور اُس پر غور و فکر کرنے کی زحمت گوارا نہ کی تھی۔ عمران شاہد بھنڈر اپنے اسی منفی اور غیر انسانی رویہ کے باعث مغربی فلسفۂ ما بعد جدیدیت کے مِنی سرکس کا ’مضحکہ انگیز کردار‘ اور ’نک چڑھا مسخرا‘ بن کر رہ گیا ہے۔ اس ڈھیلے ڈھالے رکیک نیم فلسفیاتی اور فضولیاتی مُنّی سرکس میں کہیں بھی ’’سرکسی عناصر‘‘ اور ’’سرکشی اجزا‘‘ میں قطعاً ’’ظہورِ ترتیب‘‘ مفقود ہے۔وہ اوّل و آخر نیم جان فلسفیانہ اجزائے پریشاں کا نہایت مبہم،مغلق اور غیر صاف و شفّاف ملگجی آئینہ خانہ ہے۔ جو نیم رس فکریاتی اِبہام ،اہمال اور اِشکال کی لا یعنی نیم سُفت منطق کا’’کِل کِل کانٹا گھر‘‘ میں منقلب ہو گیا ہے۔ اُس کی دو لخت انتہائی نمائشی سنجیدگی نُما مسخرگی،بے معنویت،مُہملیت اور سفاّک منفیت کے پسِ منظر میں اکرم نقّاش ،اذکار،بینگلور کا چبھتا ہوا اہم سوال اور گوپی چند نارنگ کا دو ٹوک،بے لاگ اور مُسکت جواب خاطر نشیں ہو:
اکرم نقاش:بڑی شخصیتیں متنازعیہ بھی ہوتی ہیں۔ کیا آپ اس مفروضے سے خود کو مُستشنیٰ سمجھتے ہیں؟ حال ہی میں آپ کی کتاب ’ساختیات،پس ساختیات اور مشرقی شعریات ‘کے بارے میں کچھ تحریریں منظرِ عام پر آئی ہیں۔ کیا اُن تحریروں کا جواب خاموشی ہی ہو سکتی ہے؟
گوپی چند نارنگ: آپ نے وہ مثل تو سنی ہی ہوگی’’جوابِ جاہلاں باشد خموشی‘‘۔ میری کتاب کے ابواب کوچھپے ہوئے آج چوبیس پچیس برس ہو گئے ہیں۔ آپ نے میری کتاب پڑھی ہوگی۔اگر پڑھی ہے تو اُس کا دیباچہ بھی دیکھا ہوگا۔ انتساب بھی دیکھا ہوگا۔جملہ کتابیات کی فہرستیں بھی دیکھی ہوں گی۔ تعجب ہے کہ بات’’واوین‘‘ اور ’’قوسین‘‘ کی کی جا رہی ہے۔ کتاب کے مباحث اُن کی عمدگی یا کمی کی نہیں۔ اگر کوئی بات بر بنائے خلوص کہی جائے تو اُس پر غور کرنا فرض ہے لیکن جب معلوم ہو کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ بربنائے سازش اور فریب دہی ہے ہے یا بدترین کردار کُشی، عصبیت یا خُوردہ گیری کی مُہم کا حصّہ ہے تو اُس کے بارے میں وہی کہا جاسکتا ہے جو میں نے اُوپر عرض کیا ہے۔
’’ادب میں اختلافات ہمیشہ رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔خرابی وہاں ہوتی ہے جب لوگ نظریاتی یا فکریاتی سطح پر اپنے تصورّات کا دفاع نہیں کر سکتے تو اوچھے ہتھیار اپنانے لگتے ہیں۔ یہ گندگی پہلے نہیں تھی۔ واضح رہے کہ گالی کمزور فریق کا ہتھیار ہے۔جب دلیل کو دلیل سے نہیں کاٹا جا سکتا تو لوگ مُغلظات بکنے لگتے ہیں یا در پردہ فرقہ، برادری،مسلک کا سہارا لے کر اپنے احساس کمتری کو سہلاتے ہیں۔اختلافات کو برداشت کرنا اور اپنی راہ کھوٹی نہ کرنا بڑپّن اور عالی ظرفی کی دلیل ہے۔ میری شدید خواہش ہے کاش ایسا ہو لیکن ظرف چھوٹے ہو گئے ہیں اور شخصیتیں کوتاہ!‘‘
(دیکھنا تقریر کی لذّت،صفحہ ۵۳۴،ترتیب و تہذیب مُشتاق صدف)
’’بات سچ ہو تو ایک بار کہنا کافی ہے۔البتہ جھوٹ کے لیے بار بار کہنا ضروری ہے۔ یہاں تو کھُلی عصبیت، اِفترا پردازی اور کردار کُشی ہے۔ممبئی کے ایک کرم فرما نے جو کچھ لکھا تھا اُن کا مسئلہ ذاتی ہے۔ جو سب کو معلوم ہے اور جسے میں دُہراانا نہیں چاہتا۔ان لوگوں کا مسئلہ بھی علمی نہیں ذاتی ہے۔ پھر بھی تین برس پہلے جب نند کشور وکرم اپنی کتاب چھاپ رہے تھے تو اُن کے پوچھنے پر میں نے صاف صاف کہا تھا اور یہ چھپا ہوا موجود ہے:
’’جب میں نے تھیوری پر کام کرنا شروع کیا چونکہ میری تربیت ساختیاتی لسانیات کی ہے، مجھے احساس تھا کہ فلسفہ میں بُنیادی ضرورت سائنسی معروضیت کی ہوتی ہے۔ میرے سامنے ایسے نمونے تھے جہاں لوگ بات تو فلسفہ کی کرتے ہیں لیکن جلد تخیل کے پروں سے اُڑنے لگتے ہیں۔ بہت سے اصل متن سے زیادہ خود کو نمایاں کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ یا پھر اپنے اسلوب کا شکار ہو کر انشائیہ لکھنے لگتے ہیں۔ ایک تو اصطلاحیں نہیں تھیں دوسرے نئے فلسفیوں کا انداز ایسا پیچیدہ،معنی سے لبریز اور گُنجلک ہے کہ اُسے سائینسی معروضی صحت کے ساتھ قاری تک منتقل کرنا زبردست مسئلہ ہے۔ اصل متن کی دُرستگی(PRECISENESS) اور زور و صلابت (RIGOUR) بنائے رکھنے کے لئے بے حد ضروری ہے کہ افہام اور تفہیم میں ہر ممکن وسیلے سے مدد لی جائے اور فلسفہ کے ڈسپلن کی رُو سے تخیّل کی رنگ آمیزی سے اور موضوعی خیال بافی سے ممکنہ حد تک بچا جائے۔ میری کتاب کے شروع کے دونوں حصّے تشریحی نوعیت کے ہیں۔مشرقی شعریات اور اختتام والے حصّوں کی نوعیت بالکل دوسری ہے۔ نئے فلسفیوں اور اُن کے نظریوں اور اُن کی بصیرتوں کی افہام و تفہیم میں میں نے اخذو قبول سے بے دھڑک مدد لی ہے۔ جہاں ضروروی تھا وہاں تلخیص و ترجمہ بھی کیا ہے۔بات کا زور بنائے رکھنے کے لئے اصل کے مقولات(QUOTATIONS) بھی جگہ جگہ دینے پڑے تاکہ فلسفیانہ نُکتہ یا بصیرت پوری قوت سے اُردو قاری تک منتقل ہو سکے۔ ہر حصّے کے ساتھ اُس کے جملہ مآخذ اور کُتبِ حوالہ کی فہرست دی ہے(مصادر) اور جن کتابوں سے نسبتاً زیادہ استفادہ کیا ہے یا جن سے زیادہ مدد لی ہے، ماخذ کی فہرست میں اُن ناموں پر اِسٹار(*)کا نشان بنا دیا ہے۔ واضح رہے کہ خیالات سُوسئیر ،لیوی اسٹروس،رومن جیکب سن،لاکاں،دریدا،بارتھ،فوکو،کرسٹیوا،شکلووسکی،باختن وغیرہ یا اُن کے شارحین کے ہیں۔ میرے نہیں۔ اس لیے کتاب کا انتساب اُن سب فلسفیوں اور مُفکروں کے نام ہے، جن پر کتاب مشتمل ہے۔ اس امر کی وضاحت دیباچہ میں کر دی گئی ہے کہ’’خیالات اور نظریات فلسفیوں کے ہیں۔ اِفہام و تفہیم اور زبان میری ہے‘‘۔ان فلسفیوں کو سمجھنا اور انھیں اُردو میں لے آنا اور اُردو میں اس طرح لے آنا کہ دوسرے بھی اس افہام اور تفہیم میں شریک ہو سکیں اور جن کو اشتیاق ہو وہ چاہیں تو اصل کتابوں سے بھی رجوع ہوں اور اُن بصیرتوں سے آگاہ ہو سکیں۔ میرے لیے مفکرین کی معروضی اِفہام و تفہیم بہت بڑا چیلیج تھا۔ میں اُس سے عہدہ برأ ہو بھی سکا یا نہیںیا اُردو میں کسی دوسری کتاب یا کسی دوسرے نے یہ تاریخی ضرورت پوری کی۔ اس پر مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
(گوپی چند نارنگ : بین الا قوامی اُردو شخصیت،مرتبہ نند کشور وکرم، دہلی ۲۰۰۸ صفحہ ۱۴۵)
’’ان ساری باتوں کی تفصیل میں نے دیباچہ میں دے دی ہے اور سب مآخذ کے نام کتابیات میں درج ہیں۔ کم و بیش ہر صفحہ فلسفیوں کے زریں اقوال اور اُن کے نام سے روشن ہے۔ مصادر میں بیسیوں کتابوں پر خاص نشان ہے۔ جن سے میں نے جی بھر کر فیضان حاصل کیا۔ مُعترضین افکار و نظریات پیدائش سے ساتھ لاتے ہوں گے۔ میں نے تو جو کچھ حاصل کیا۔ کتابوں سے حاصل کیا۔ اُن کے نام بھی دے دیے اور اُن کو نشان زد بھی کر دیا ۔اِدّعا میرا مزاج نہیں۔ پھر بھی میں چیلیج کر سکتا ہوں کہ ایک ماخذ یا کسی ایک مصنّف کا نام اب بتا دیں جس کا حوالہ میری کتابیات میں نہ ہو۔ میں نے اُوپر کہا ہے کہ میں نے بے دھڑک استفادہ کیا ہے۔ ان بیچاروں کو تو لفظ سرقہ کے معنی بھی نہیں معلوم ۔ ایک لفظ کہیں دیکھ لیا اُس کا راگ الاپنے لگے۔ میں صاف کہہ چکا ہوں کہ افکار و خیالات نظریہ سازوں اور نقادوں کے ہیں۔ فقط ترسیل میری ہے۔ میں نے جی بھر کے اِفہام و تفہیم بھی کی اور اخذ و استفادہ بھی کیا۔ جہاں سے جو کچھ لے سکتا تھا ڈنکے کی چوٹ پر لیا۔ البتہ اُن افکار سے موتیوں کی جو مالا بنائی ہے۔ اُس میں موتی تو کہاں کہاں کے ہیں۔مگر وہ مالا میرے ذہن نے میں نے پروئی ہے۔‘‘
’’میری کتاب کے شروع کے دونوں سیکشن تشریحی ہیں۔ جس میں ساختیاتی اور پس ساختیاتی مُفکرین اور نظریہ سازوں کے خیالات کو جیسا میں نے سمجھا اُنھیں غیر ضروری خیال آرائی سے بچا کر حددرجہ معروضی انداز میں اپنے فہم و ادراک کے مطابق اپنی زبان میں بیان کر دیا۔
’’میں نے یہ کب دعویٰ کیا ہے کہ یہ خیالات اوریجنل میرے ہیں۔ البتہ جو نظریاتی مرقع بنایا ہے وہ بھلا بُرا میرے ذہن و شعور نے یعنی میں نے ہی بنایا ہے۔ اتنا جانتا ہوں کہ سرقہ ورقہ،چوری وغیرہ یہ سازشی مہم بازی کا حصّہ ہے۔ میری کتاب تو ایک معمولی کتاب ہے۔ یہ کیڑے ڈال کر اُس کی توقیر بڑھاتے ہیں۔خُود اُس سے بہتر کتاب کیوں نہیں لکھ دیتے۔ یا ایک نام بتا دیں جس کو میں نے نشان زد نہ کیا ہو؟میں ایک معمولی مصنّف ہوں۔ اتنا جانتا ہوں کہ بڑے مصنّف چھوٹی موٹی چوری نہیں بڑا ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ کالی داس نے بھی ڈاکہ ڈالا تھا۔ اُن کا ہر شاہکار مہابھارت اور پُرانوں سے ماخوذ ہے۔شیکسپئر نے بھی ہیرڈیٹس پر ڈاکہ ڈالا تھا۔ غالب نے بھی بیدل پر ڈاکہ ڈالا تھا۔ ورنہ یاس یگانہ چنگیزی زندگی بھر غالب شکنی کا جوکھم نہ اُٹھاتے۔ اقبال پر بھی قُرۃالعین طاہرہ کا الزام عائد کیا گیا۔ میں نے تو اپنے دیباچہ میں قاری کو اصل مآخذ سے رجوع ہونے کو بھی کہا ہے اور میری کتاب سے آگے نکل جانے کی دعوت بھی دی ہے۔ مجھے اپنی کوتاہیوں کا احساس ہے۔ مجھے خوشی ہوگی ایک دن ایسا آئے گا جب معترضین میں سے کوئی ذاتیات سے ہٹ کر دل سوزی،خلوص اور نیک نیتی سے ایسا کام کرے کہ میرا کام ردہو جائے۔ خُدا کرے ایسا ہو۔‘‘
’’کچھ تو ایسا ہے کہ خود شمس الرحمٰن فاروقی نے کہا تھا کہ . . .’’اِدھر تنقید کی سطح پر ایک زبردست وقوعہ ظہور پذیر ہوا ہے۔ وہ گوپی چند نارنگ کی کتاب ہے۔یہ کتاب دیر تک اور دور تک اُردو تنقید کو متاثر کرے گی۔‘‘پھر یہ فرمایا کہ ’’یہ ایک بین العلومی کتاب ہے۔ جس کی قدر زمانہ کرے گا۔‘‘ (آن ریکارڈ)اگر اس کا دس فیصد بھی سچ ہے تو یہ مجھ نا چیز پر اُن کا کرم ہے۔ (اب وہ دوسری طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں حسد کی وجہ سے ان کا رویہ اب نارمل نہیں رہا، واللہ عالم بالصواب)‘‘
’’اکرم نقاش صاحب ،کیونکہ ادھر آپ نے سب کچھ نہیں پڑھا۔ میں چاہوں گا کہ آپ ڈاکٹر مولا بخش کی کتاب’’جدید ادبی تھیوری اور گوپی چند نارنگ ‘‘کا آخری باب ’معترضین نارنگ پر ایک نظر‘ جو چالیس پچاس صفحات پر مشتمل ہے۔اُسے ضرور ملاحظہ فرما لیں اور ذیل کے دو مضامین بھی جو اُس کے بعد انھوں نے لکھے ہیں۔اُن کو بھی دیکھ لیں۔ہر بات کا جواب مل جائے گا۔
1. ''Charge of Plagiarism:Myth or Reality''
www.outlookindia.com
2. ''The Courtiers and Clowns''
www.outlookindia.com
اکرم نقاش: آج جب انسان چاند پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ساری دُنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کے غلبہ میں ہے ایسے میں کچھ دیوانوں کے جنون کے سہارے زبان و ادب بالخصوص اُردو کی نیّا کنارے تک پہنچ سکتی ہے؟
گوپی چند نارنگ: اُردو کے مسائل تاریخ اور سیاست نے تو پیدا کیے ہی ہیں۔خود ہم نے بھی پیدا کیے ہیں۔ جس کا اشارہ اُوپر کیا گیا ہے۔ بیشک سائنس اور ٹیکنا لوجی کے غلبہ سے دُنیا کی رفتار بدل رہی ہے۔ سماج بدل رہا ہے۔ انسان بدل رہا ہے۔ زندگی بدل رہی ہے۔ زبانیں بدل رہی ہیں۔ تو اُردو میں بھی تبدیلیاں آئیں گی۔ افسوس کہ ہماری زبان بُحران کی زد میں ہے۔ یہ بُحران سیاسی بھی ہے۔ لسانی بھی او ر تہذیبی بھی۔ ادب بیشک جنون کا کھیل ہے لیکن ایسی دیوانگی کا جو عشق کی فرزانگی سے سرشار ہو۔ فقط منفی مسائل میں نہ اُلجھیں۔ آنے والے زمانے کو نئے پریم چند، نئے منٹو، نئے بیدی،نئی قرۃالعین حیدر ،نئے فیض، نئے فراق، نئے ناصر کاظمی اور نئے اختر الایمان کی ضرورت ہے تاکہ نئے آفاق روشن ہو سکیں۔ ادب کی پہچان تغیرپذیر تخلیقیت سے ہے۔‘‘
(جولائی،اگست، ستمبر2010 ،’’دیکھنا تقریر کی لذّت‘‘ترتیب و تہذیب مشتاق صدف)
گذشتہ صدی کی آخری اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی وصفی اور کمیتی لحاظ سے گہری اور دور رس اثر کو چھوڑنے والی ہے۔یہ ’’اُردوئی مابعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک‘‘ کی امین ہے۔ جو اکیسیوں صدی پر محیط ہوگی۔ حالات خواہ کتنے ہی بحران آگیں ہوں۔ مسائل کتنے ہی چیلیج آگیں ہوں۔ کسی بھی نوعیت کے ادبی طالبان اور تہذیبی لشکران کتنے ہی شخصیت،فکر و فن کُش ہوں۔ کیا زندگی اور ادب میں نت نئی تبدیلی کی زندہ رہنے کی آرزو دم توڑ دے گی؟ ایسا نامیاتی سطح پر ممکن نہیں ہے۔ اکیسویں صدی کے ما بعد جدید تناظر میں کیا صرف منفی طاقت ہی طاقت ہوگی؟کیا کوئی اثبات آگیں چیخ نہ ہوگی۔للکار نہ ہوگی۔ چُنوتی نہ ہوگی؟
دم سے آگے بم کبھی جاتا نہیں
جان دے کر بم کو دکھلاؤں گا میں
خاک مجھ کو ہر سفر میں ساتھ رکھ
ذہن افروزی کے کام آؤں گا میں
(مقیم اثر)
زندگی اور ادب نت نئے تخلیقیت افروز ممکنات اور مُضمرات سے مملو ہے۔ نت نئی تخلیقیت اور معنویت کسی ایک مقام پر رکتی نہیں۔ یہ ہر لمحہ جواں،ہر لمحہ جُرات آزما،ہر لمحہ تازہ کار اور ہر لمحہ تبدیلی آشنا ہے۔ نارنگ کی خیالی ادبی موت کو ڈبل ٹَیپ(موت مُتعین کرتے ہوئے)فلسفۂ ما بعد جدیدیت کو دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔ اس کا غیر ادبی مقدّر اوّل و آخر ازلی و ابدی،زبونی اور خرابئی بسیار ہے۔ یہ طالبانی سرجیکل اسٹرائک بھی پھُس ہو گئی۔ نارنگ آج بھی ہمہ رُخی، فکریاتی روشنی کے مینار ہیں۔ اُن کا ہر ورقِ دل’’کاغذِ آتش زدہ‘‘ (مطبوعہ 2011) ہے۔
عمران شاہد بھنڈر گوپی چند نارنگ کے جوتے میں اُبھر آئی ہوئی نا خواستہ ایک فضول نوعیت کی اذیت دِہ اُلٹی کیل سے زیادہ کچھ نہیں۔ جو وقت کی ایک گردش کے بعد نیست نابود ہو جائے گی۔ اُس کا مخبوط الحواس دل و دماغ نیم پُخت، غیر مرتب اور غیر مُدوّن ادھ کچری نیم فلسفیاتی کثافتوں سے بُری طرح آلودہ ہے۔(5) اُس میں فکریاتی لطافت نابود ہے۔ وہ زندگی ، ادب اور فن کے کسی بھی نوعیت کے لطیفے سے قطعاً عاری، یکسر کلبیت زدہ رو بوئی کثیفہ ہے۔ اُس میں چند ذاتی تعصبات، مکروہ تاثرات اور پوشیدہ مفادات اور سازشات مشروط کر دیے گئے ہیں۔ وہ اوّل و آخر کاذبانہ شباہت انگیزی اور التباس آفرینی کے ذریعہ نا رنگ کے خلاف مُُنتقمانہ طور پر مسلسل مصنوعی واہماتی جنگ برپا دکھانے کے بد ترین زرد اور زعفرانی خبط میں مبتلا ہے۔ درحقیقت وہ مانگے تانگے کے مارکسی مُکھوٹے میں نہایت منفی سطح پر طالبانی اور لشکری جنگ جو شناخت کا سرغنہ بننا چاہتا ہے۔ وہ غیرادبی لشکری نوعیت کے طالبانی ’’مالیخولیا‘‘ میں مبتلا ہے۔ وہ اس غیر ادبی دہشت پسندی کو بڑھاوا دینے والا کچرا ہے۔ اُس کو صحیح جگہ پہونچانے کی ضروروت ہے۔ اُس کے لیے مخالفِ ادبی دہشت گردی کی تدبیر نا گزیر ہے۔ اُس کی ’فلسفۂ ما بعد جدیدیت‘ تخلیقی توانائی،تخلیقی فوکس،تخلیقی تخیّل اور تخلیقی شعور و آگہی کی موت ہے۔آرٹ اِسپی گیل من نے 9/11کے حادثے پر منحصر جب اپنی شاہکار کہانی تخلیق کی تو انھوں نے اُ س کو ’’ اِن دَ شیڈو آوف نو ٹاورس‘‘ سے موسوم کیا۔ وہ واقعی ایک دلآویز مثبت اور تخلیقیت افروز سوچ تھی۔ کیونکہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے برجوں کی موجودگی نے نا اُمیدی کا سامراج نہیں کھڑا کیا تھا بلکہ یہ روح فرسا تاریکی اُن کی غیر موجودگی کے باعث پھیلی تھی۔ یہ اُردو ادب اور تنقید کی سعادت ہے کہ اکیسویں صدی کے ما بعد جدید تناظر میں نئے عہد کی تخلیقیت کی جانب ہم گوپی چند نارنگ کی غیر معمولی مُثبت اور تخلیقیت کُشا شخصیت اور فکر و فن کے عظیم تر اور وسیع تر دائرہ نور میں خوب سے خوب ترین منزلوں کی طرف مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔
***

Montag, 5. September 2011

عمران بھنڈر کی کتاب کج فہمی اور ژولیدہ بیانی کا شاہکار

 (نظام صدیقی (الٰہ آباد

مغربی تناظر میں ’فلسفۂ مابعد جدیدیت‘ کا برہان قاطع
(عمران بھنڈر کی کتاب کج فہمی اور ژولیدہ بیانی کا شاہکار)
دنیائے ادب کے اندیشہ میں مبتلا قاضی القضایہ نام نہاد شمس العلما کا ’خرِ نامشخص ‘ (بہ ترکیبِ غالب) عمران شاہد بھنڈر ذہنی ایذادہی اور نفسیاتی ایذاپسندی کے مرض میں مبتلا بدترین نرگسیت کا شکار ہے۔ گدھا ہزار بار حج کرنے کے بعد بھی حاجی نہیں ’’نازی گدھا‘‘ کہلانے کے خبط کا قتیل ہوسکتا ہے۔ کہاوت ہے کہ پٹھانوں کی عقل گھٹنے میں ہوتی ہے اور بھنڈروں کی عقل ٹخنے میں ہوتی ہے۔ عظمت اللہ خاں اور شبیر حسین خاں (جوش ملیح آبادی) زندگی بھر غزل کی آنکھ پر گھٹنے مارتے رہے۔ غزل کا تو بال بیکا نہیں ہوا۔ یہ دونوں ’’ناغزل مرد‘‘ وقت کی ایک ہی گردش کے بعد ردّی کی ٹوکری کا رزق بن گئے۔ اب نئے محاورہ ’’مارو ٹخنہ پھوٹے آنکھ‘‘ کے مصداق عمران شاہد بھنڈر کُل اردو ادب کی آنکھ کو پھوڑنے کے زعم میں یکسر مخبوط الحواس ہوگیا ہے۔ اس کو نہیں معلوم کہ گوپی چند نارنگ کی ’’تیسری آنکھ‘‘ (شیو نیتر) دھیان گیان کے باعث متحرک اور بیدار ہے اور وزیرآغا کی تو ’’چوتھی آنکھ‘‘ بھی وا تھی جو ’’قَدَم کی آنکھ‘‘ ہے جو بیک وقت ’’چشم جاں‘‘ اور ’’چشم اللہ‘‘ ہوتی ہے۔ یہ لوگ Philosophia (قید و نظر) سے آگے Philosia (آزادئ فکر و نظر) کے عارف ہیں۔ جس سے عمران شاہد بھنڈر اپنی بدترین محسن کشی اور احسان ناشناسی کے باعث ابھی تو قطعاً محروم ہے۔ حیدر قریشی نے ’’جدید ادب‘‘ میں اس کا جعلی تعارف کرایا تھا کہ وہ مابعدجدیدیت کی ادبی تھیوری پر ڈاکٹریٹ(*) کررہا ہے جبکہ مابعد جدیدیت ثقافتی تھیوری کی علمبردار ہے۔ ادبی تھیوری تو فی زمانہ شہرادب سے باہر ریٹائرڈ سالارِ جدیدیت کی تھیوری تھی جو اول و آخر صرف ہیئت پرستی اور فنیت کو ہی مسجود سمجھتی تھی اور سماجیاتی، اقتصادی اور سیاسی تناظر کو قطعاً غیرادبی بدعت تصور کرتی تھی۔ گوپی چند نارنگ نے تو ہندستانی تواریخی، عمرانی، ثقافتی، اقتصادی اور سیاسی تناظر میں ’’اردوئی مابعد جدیدیت‘‘ کی طبعزادانہ طور پر تخلیق، تشکیل اور تعمیر کی ہے۔ اس میں اردو کی پوری مابعد جدید نسل کے شاعروں، افسانہ نگاروں اور ناقدوں کا خونِ جگر شامل ہے۔ اس خورشید آسا صداقت کی شاہد عادل نارنگ کی مرتب کردہ اہم اور معنی خیز کتاب ’’اردو مابعد جدیدیت پر مکالمہ‘‘ ہے۔ اس ضمن میں ان کا دسمبر 1995 کا غالب اکادمی سلور جبلی توسیعی خطبہ ’’ترقی پسندی، جدیدیت، مابعدجدیدیت‘‘، ’’ادب کا بدلتا منظرنامہ‘‘ سمینار کا کلیدی خطبہ ’’مابعدجدیدیت، اردو کے تناظر میں‘‘، ’’مابعد جدیدیت کے حوالہ سے کشادہ ذہنوں اور نوجوانوں سے کچھ باتیں‘‘ خصوصی طور پر قابل ذکر و فکر ہیں۔ بعد کے یہ دونوں مقالات تو پہلے سہ ماہی نیاورق بمبئی میں ہی شائع ہوئے تھے۔ البتہ انھوں نے صرف ’’علمیاتی بصیرتوں‘‘ کو پوری دنیا کے تنقیدی ادبیات سے اپنے عالمی، قومی اور مقامی انتخابی شعور و آگہی کے زیراثر منتخب اور منور کیا ہے اور ان کا اپنے قومی سیاق و سباق میں نہایت تنقیدی اور بصیرتی تمیز و تہذیب کے ساتھ اردوئی مابعدجدیدیت میں استعمال کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ان کا مضمون ’’مابعدجدیدیت عالمی تناظر میں‘‘ اس خورشید نیمروزی صداقت کا گواہ ہے۔ نارنگ کے ان تمام مقالات میں تنقیدی بصیرت اور تخلیقی تخیل کا بھرپور استعمال ہوا ہے۔ ان کے اندر مختلف عالمی، مقامی اور قومی افکار کی تفہیم، تعبیر، تفسیر، تنویر اور معروضی تجزیہ کاری کی فطری اہلیت ہے۔
اس غیرمعمولی تنقیدی قابلیت کی عملی اور اطلاقی کارکردگی کا مظہر ان کا آرٹیکل ’’کیا تنقید کی بدلتی ترجیحات اور رویے ہمیشہ نظریاتی اور اقداری نہیں ہوتے؟‘‘ (اطلاقی تنقید : نئے تناظر مرتبہ گوپی چند نارنگ) خصوصی طور پر ہے جو اُن کی ادبی اخلاقیات، تعقلات اور اطلاقیات کا ترجمان ہے۔ محولابالا ان دو کتابوں کی بنیاد پر واقعتاً اردو ادب میں ایک وقیع اور فکرانگیز مکالمہ شروع ہوا ہے۔ یہ معنویات افروز مکالمہ جاری و ساری ہے۔ معاصر رجحان ’’اردوئی مابعدجدیدیت‘‘ پر کئی مذاکرے اور اجتماع منعقد ہوچکے ہیں۔ متعدد اہم اور معنی خیز کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
ان تمام زندہ، تابندہ اور پائندہ لطیف تر تنقیدی اور ادبی حقائق سے ناواقف کنویں کا مینڈھک عمران شاہد بھنڈر اپنے نابالغ ذہنی زعم میں مغربی تناظر میں کج مج خام مغربی ’’فلسفۂ مابعدجدیدیت‘‘ کو اردو کے قارئین کے لیے نہایت غیرسنجیدگی اور پھوہڑپن سے پروس رہا ہے۔ وہ مغربی فلسفہ میں محض طالبانہ سطح پر ایم فل ہے۔(*) اپنی طالب علمانہ تھیسس کے کج مج پھوہڑ ابواب کو ہی کارٹونی مضحکہ انگیز انداز میں نہایت انتقامی جذبہ کے تحت پیش کررہا ہے جو اردو ادب کے لیے قطعاً ناموزوں، نامعقول اور نامناسب ہے۔ یہ لایعنی اور بے مغز کتاب اردو ادب کے ثقافتی اور علمیاتی تناظر میں قطعاً قابل ردّ ہے۔ اس بے مایہ مستعار غیرتناظری اور غیرسیاقی مجہول کتاب کی قومی، مقامی اور علاقائی معنویت، اردوئی اہمیت اور دیسی جمالیاتی، قدریاتی، قدسیاقی اور الوہیاتی قدر و قیمت اردو زبان کے سیاق و سباق میں صفر ہے۔ وہ نہ تو عظیم تر ہندستانی فلسفہ سے واقف ہے اور نہ مغربی فلسفہ کا اچھا اور سچا طالب علم ہے۔ علم بغیر حلم کے نصیب نہیں ہوتا ہے۔ وہ محض شنکر کے ماورائی نظریہ کی سنی سنائی باتوں کے پس منظر میں ہوائی اور خلائی نیم فلسفیانہ اور غبیانہ باتیں کررہا ہے جو سب کی سب مستعار اور ترجمہ شدہ ہیں۔ وہ خود ہی اول و آخر بدترین مترجم اور قابل نفریں سارق ہے۔ اس کو تو صحیح اور فصیح اردو پر دسترس بھی حاصل نہیں ہے۔ وہ تو نارنگ کے گرانقدر تعقلات افروز ’’سنسکرت شعریات اور ساختیاتی فکر‘‘ اور ’’عربی فارسی شعریات اور ساختیاتی فکر‘‘ کی مطالعاتی کارکردگی کا اہل ہی نہیں ہے تو وہ نارنگ کی غیرمعمولی تفہیماتی، تعبیراتی اور تجزیاتی قابلیت اور اطلاقی بین علومی کارکردگی کو کیا سمجھے گا؟ مشرقی اور مغربی علمیات اور جمالیات کی تمام علمیاتی اور جمالیاتی مماثلتوں اور امتیازوں کی لطیف ترین نکات جوئی اور اکسراتی تجزیہ کاری کے لیے ان کی مابعد جدید علمیات و قدریات کے جوہر اصل تک رسائی کی، قدرشناسی اور قدرفہمی کی کہاں سے اہلیت اور قابلیت لائے گا؟
گوپی چند نارنگ نے نئی تھیوری کے مفکرین کی نئی بصیرتوں کا سنسکرت شعریات کے مفکرین اور عربی فارسی شعریات کے مفکرین کے فلسفیانہ اور مفکرانہ بصائر کا جو لطیف اور رفیع تقابلی مطالعہ کیا ہے اور اس کے عمیق تحلیل و تجزیہ سے جو نئے فکریاتی نتائج اخذ کیے ہیں، وہ یکسر صاف و شفاف نئے علمیاتی نتائج ہیں۔ وہ مابعدجدید عالمی تنقید کی نوفکریاتی نتائجیت (New Pramatices) میں بھی نہایت قابل ذکر و فکر ہیں۔ ان نئی نتائجیہ جہات (New Pramatic Dimensions) سے انکار کرنا یکسر فکری بددیانتی ہے۔ ادب میں ایک انچ کا اضافہ صدیوں میں ہوتا ہے۔ اس سے محروم بصیرت عمران شاہد بھنڈر قطعاً ناواقف محض ہے۔ ابھی تو بھنڈر ابصار اور بصائر کا فرق نہیں جانتا ہے۔ ادبی دہشت پسندی کے اصلی شیطان کے نمائندہ بھنڈر کی بے بنیاد غیرتنقیدی اور غیرادبی افواہوں اور اٹکلوں سے بھڑکیلی اور بھڑکاؤ سنسنی خیز نیوز تو بن سکتی ہے لیکن اس میں حقیقت خودکشی کرتی ہے۔ صداقت، انصاف اور تواریخی قوتیں گوپی چند نارنگ کے ساتھ ہیں۔ ان میں پیچھے پن کی جانب جانے کے بجائے نئے پن کے لیے ذہنی کشادگی اور زبردست فوکس ہے۔ بھنڈر اپنے مٹی کے پیروں پر کلہاڑی مارنے میں چھوٹا استاد ہے۔ ایک دن اس کو پتہ چلے گا کہ وہ ’’وِدَراوے‘ ہوگیا ہے۔ نارنگ نے طرزکہن پر اڑنے اور آئین نو سے ڈرنے کے بجائے اردو ادب کو تنقید کا نیا ماڈل عطا کردیا۔ نتیجتاً نہ صرف ہندوپاک بلکہ اردو کی نئی بستیوں میں بھی نارنگ کے نام کا ڈنکا بج گیا ہے۔ نارنگ نے اپنے نوتواریخ ساز آرٹیکل ’’تنقید کے نئے ماڈل کی جانب‘‘ کے اختتامیہ پر نہایت دوراندیشی سے حاضر اور نیم حاضر مقتدرات کی سازشوں اور بارودی سرنگوں سے بچنے کے لیے دافأ بلیات الطاف حسین حالی کا نسخۂ نجات یا رُقعۂ آخرہ چسپاں کررکھا ہے۔ ’’لیکن اگر صرف غلطیوں کے دکھانے پر ہی اکتفا کیا جائے اور خوبیوں کو بہ تکلف برائیوں کی صورت میں ظاہر کیا جائے تو بھی ہم اپنے تئیں نہایت خوش قسمت تصور کریں گے۔‘‘ بڑی دوررس تخلیقی بصیرت پہلے سے ہی بڑی دوررس پیش بندی اور زائچہ بندی کر بے فکر ہوجاتی ہے اور ہر نوعیت کے منفی رویوں کو اپنی ابدی ادبی زندگی کی پوری کھِلاوٹ کے لیے انھیں زرخیز کھاد میں منقلب کرلیتی ہے۔
عمران شاہد بھنڈر تو پوری کتاب میں بار بار اپنی فکری بے دست و پائی اور اخلاقی شکست خوردگی کے باعث اپنے مضمحل اور مدقوق غیرمعروضی ذاتی تعصبات اور تاثرات کو نہایت کج مج اور پیچ در پیچ انداز میں پیش کررہا ہے۔ وہ بار بار ایک ہی بات کو دہرا رہا ہے کہ نارنگ مترجم ہیں یا سارق! نارنگ نہ تو مترجم ہیں اور نہ سارق ہیں۔ وہ نت نئی ’’ادبی بصیرت‘‘ کے اول و آخر جوئندہ اور یابندہ ہیں۔ وہ ان کو اپنے اردوئی تناظر میں منقلب کرنے والے ایک عظیم تر نظریہ ساز اور کیمیاگر ہیں۔ ان کو مٹی کو سونا بنانے کی خوش ہنری اور خوب ہنری آتی ہے تو ہی ’’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ نئی اردوئی بوطیقا کے روپ میں وجودپذیر ہوئی ہے اور اس کو قبولیت اور محبوبیت بھی نصیب ہوئی ہے۔ نارنگ کے اس غیرمعمولی نظریاتی کیمیائی عمل سے اردوئی تناظر کو، ہندستانی تناظر کو اور دیسی تناظر کو یکسر نئی زندگی اور نئی روح نصیب ہوئی ہے۔ نارنگ اپنی نت نئی بصیرت جوئندگی اور پابندگی کے باعث فی زمانہ ہندستانی مابعدجدید تناظر میں ’’نئے عہد کی تخلیقیت‘‘ تک پہنچ گئے ہیں جس سے عمران شاہد بھنڈر کے فرشتہ بھی ابھی تک ناواقف محض ہیں۔ اس کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ اس میں اردو ادب شناسی اور اردو ادب فہمی کمیاب ہے۔ اب وہ خود ہی حیدر قریشی کے لکھے ہوئے مختصر تعارف نامہ کو مسترد کر اپنا حلیمانہ تعارف کرا رہا ہے کہ اس نے 2007 میں ’’فلسفہ انگریزی ادب‘‘ میں ایم اے کیا ہے(*) اور 2009 میں سولی ہل کالج سے ایجوکیشن میں سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد برطانیہ میں ہی شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہوگیا ہے۔ شعبۂ تعلیم میں گھٹنوں کے بل چلنے والا بھنڈر شعبۂ تعلیم کی ہمالیائی چوٹی ہمادری گوپی چند نارنگ کے منہ لگنے والا بھنڈر، ادب کے ساتویں آسمان پر تھوکنے کی بیجا جسارت کرنے والا بھنڈر آج خود اپنے پاس واپس ہوئے تھوک کو بار بار نگل اور اُگل رہا ہے۔ اس کی بچکانہ اور طالب علمانہ تعارفی کتاب ’’فلسفہ مابعدجدیدیت‘‘ اس کی بچکانی فکریاتی جگالی کی اگالدان ہے۔ اس میں اپنے موضوع کی سطحی روشناسی تو ہے لیکن حلیمانہ روح شناسی نایاب ہے۔
بھنڈر کی پوری کتاب بھانومتی کا پٹارہ ہے اور انتہائی جاہلانہ زعم میں گانٹھی گئی ہے۔ عمران بھنڈر عام ریسرچ اسکالر کے مانند اچھا موچی بھی نہیں ہے۔ ابوجہل اور ابولہب اردو کے ریٹائرڈ ناقدین نے اس کو اپنے اپنے بانسوں پر چڑھا رکھا ہے۔ نہ بانسوں میں دم ہے اور نہ ناقدین میں کس بل ہے۔
دوسرے ایڈیشن میں نہایت انتقامی طور پر کئی نئے ابواب کا اضافہ کیا ہے۔ لیکن ان سب میں ’’بھُس‘‘ بھرا ہے۔ ذہنی غفلت کے باعث ایک بار کے بعد ہر جگہ صرف ’’مابعد جدیدیت پر مکالمہ‘‘ کا حوالہ دیتا ہے اور نفسیاتی دہشت زدگی کے باعث ’’اردو‘‘ کو گول کردیتا ہے اور قاری کو غچہ دیتا ہے۔ اس کا سارا کھیل دراصل کاذبانہ شباہت افروزی یا شباہت کذبی کا ہے۔ وہ بذات خود بدترین مترجم اور سارق ہے اور وہ بھی نہایت نیم پخت اور 
Green Horn!وہ سبز قدم ہے۔
یہ طالبانی سرجیکل اسٹرائک بھی پھُس ہوگیا اور بھنڈر بھی ’’چُک‘‘ گیا۔ وہ اپنے کو بار بار (بدترین طور پر) دہرا رہا ہے جو عبرت انگیز ہے۔
شہر بمبئی، شہر الٰہ آباد اور شہر دہلی کے ادبی طالبان اور لشکران اپنی بدترین غیرادبی طالبانیت اور لشکریت کے باعث بھنڈر کی کتاب کو مفت میں بانٹ رہے ہیں۔ ان ریٹائرڈ غیر ادبی ابوجہلوں اور ابولہبوں کا مقدر شکست فاش ہے۔ فاتح دل فاتح روح اور فاتح زمان و مکاں اردو کا محبوب اور معشوق اور بیک وقت محب اردو اور عاشق اردو پروفیسر گوپی چند نارنگ آج بھی اپنے بیکراں ادبی خلوص اور بے پایاں ادبی اور تنقیدی بصیرت کے باعث ناقابل تسخیر ہے کیونکہ وہ فطرتاً لانہایت اور بے نہایت حلیم و علیم ہے۔ وہ اپنی فطری حلیمی اور علیمی رخشندگی کے باعث اردو ادب میں حالی کے مانند ہمیشہ زندہ، تابندہ اور پابندہ رہے گا۔ یہ فضل ربی اور رحمت الٰہی ہے جس سے راندۂ درگاہ ادبی طالبانی اور لشکران محروم ہیں۔ مغربی تناظر میں ’’فلسفۂ مابعد جدیدیت‘‘ کاغذ، قینچی اور گوند کی کرشمہ سازی سے تیارکردہ جعلی تنقیدنگاری کا نظربند اور فریب نظر ایبسرڈٹھیٹر ہے۔ اس میں کاذبانہ شباہت افروزی (Simulcra) کے ذریعہ تنقیدی سراغ رسانی اور تحقیقی رزم آرائی کے غیرسنجیدہ مناظر نہایت بے ڈھب اور لچر ڈھنگ سے مرتب اور مدون کیے گئے ہیں۔ یہ کہیں کے نام نہاد فلسفیاتی اینٹ اور کہیں کے علمیاتی روڑہ کا مضحکہ انگیز غیرعلمیاتی اور غیرفلسفیاتی پٹارہ ہے۔ یہ اکیسویں صدی کے مابعدجدید منظرنامے پر اردو کے سنجیدہ اور رنجیدہ قارئین کے لیے بیک وقت نہایت پیچیدہ، گنجلک لیکن نہایت قہقہہ آور ’’غیرتحقیقی اور غیرتنقیدی کتاب‘‘ ہے۔ اس کے جملہ جائز اور ناجائز حقوق عمران شاہد بھنڈر کے نام محفوظ ہیں۔ خدا کرے وہ اردو دنیا کے لیے ہمیشہ خطرناک حد تک سنجیدہ اور قہقہہ بار رہے۔ اُس کی آنے والی کتاب (ادبی یا غیرادبی) ’’سامراجی دہشت گردی کا فلسفیانہ جواز‘‘ ہے۔ اس کا نام ہی بیک وقت ڈرانے دھمکانے اور ہنسانے اور گدگدانے کے لیے کافی اور شافی ہے۔ جو نیتھن سوئفٹ کی بابت جارج آرول نے اظہارخیال کیا ہے کہ وہ انسانی معاشرہ اور انسانی فطرت کے مشاہدہ کے ضمن میں جزوی طور پر اندھا تھا۔ اس نے آدمی کے منفی نحوست آگیں، ظلمت پسند رویہ اور غلیظ ابتذال پرور برتاؤ اور عمل کو ضرور دیکھا تھا۔ مگر انسان کے لطیف اور رفیع پہلو کو نہ دیکھا اور نہ غور کیا۔ عمران شاہد بھنڈر اپنے اسی منفی اور غیرانسانی رویہ کے باعث ’’مغربی فلسفۂ مابعدجدیدیت‘‘ کے منی سرکس کا مسخرا بن کر رہ گیا ہے۔ اس نیم فلسفیاتی منی سرکس میں کہیں بھی مختلف ’’سرکسی عناصر‘‘ اور ’’سرکشی اجزا‘‘ میں قطعاً ’’ظہورترتیب‘‘ مفقود ہے۔ وہ اول و آخر نیم فلسفیانہ اجزائے پریشاں کا نہایت مبہم، مغلق اور غیرصاف و شفاف ملگجی آئینہ خانہ ہے جو نیم فکریاتی ابہام، اہمال اور اشکال کی لایعنی منطق کے ’’کِل کِل کانٹا گھر‘‘ میں منقلب ہوگیا ہے۔ اس کی دو نیم انتہائی نمائشی سنجیدگی نما مسخرگی، بے معنویت، مہملیت اور سفاک منفیت کے پس منظر میں اکرم نقاش، اذکار، بنگلور کا چُبھتا ہوا اہم سوال اور گوپی چند نارنگ کا دو ٹوک، بے لاگ اور مسکت جواب خاطرنشیں ہو۔
اکرم نقاش : بڑی شخصیتیں متنازعہ بھی ہوتی ہیں۔ کیا آپ اس مفروضے سے خود کو مستثنیٰ سمجھتے ہیں؟ حال ہی میں آپ کی کتاب ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ کے بارے میں کچھ تحریریں منظرعام پر آئی ہیں۔ کیا ان تحریروں کا جواب خاموشی ہی ہوسکتی ہے؟
گوپی چند نارنگ : آپ نے وہ مثل تو سنی ہی ہوگی، ’’جوابِ جاہلاں باشد خموشی‘‘ کتاب کے ابواب کو چھپے ہوئے آج چوبیس پچیس برس ہوگئے۔ آپ نے میری کتاب پڑھی ہوگی۔ اگر پڑھی ہے تو اس کا دیباچہ بھی دیکھا ہوگا۔ انتساب بھی دیکھا ہوگا۔ جملہ کتابیات کی فہرستیں بھی دیکھی ہوں گی۔ تعجب ہے کہ بات ’’واوین‘‘ اور ’’قوسین‘‘ کی جاری ہے۔ کتاب کے مباحث، ان کی عمدگی یا کمی کی نہیں۔ اگر کوئی بات بربنائے خلوص کہی جائے تو اس پر غور کرنا فرض ہے لیکن جب معلوم ہوکہ جو کچھ کہا جارہا ہے وہ بربنائے سازش کہا جارہا ہے یا کردارکشی و خوردہ گیری کی مہم کا حصہ ہے تو اس کے بارے میں وہی کہا جاسکتا ہے جو میں نے اوپر کہا ہے
’’ادب میں اختلافات ہمیشہ رہیں گے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ خرابی وہاں ہوتی ہے جب لوگ نظریاتی یا فکری طور پر اپنے تصورات کا دفاع نہیں کرسکتے تو اوچھے ہتھیار اپنانے لگتے ہیں۔ یہ گندگی پہلے نہیں تھی۔ واضح رہے کہ گالی، کمزور فریق کا ہتھیار ہے۔ جب دلیل کو دلیل سے نہیں کاٹا جاسکتا تو لوگ مغلظات بکنے لگتے ہیں یا درپردہ فرقہ، برادری، مسلک کا سہارا لے کر اپنے احساس کمتری کو سہلاتے ہیں۔ اختلافات کو برداشت کرنا اور اپنی راہ کھوٹی نہ کرنا بڑپّن اور عالی ظرفی کی دلیل ہے۔ میری شدید خواہش ہے کاش ایسا ہو۔ لیکن ظرف چھوٹے ہوگئے ہیں اور شخصیتیں کوتاہ۔‘‘
(’’دیکھنا تقریر کی لذت، ص 53، بنگلور 2010، ترتیب و تہذیب مشتاق صدف)
’’پھر باتیں ان لوگوں کی طرف سے اٹھوائی جائیں جن کا تھیوری سے دور دور تک کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ بات سچ ہو تو ایک
بار کہنا کافی ہے۔ البتہ جھوٹ کے لیے بار بار کہنا ضروری ہے۔ یہاں تو کھلی افتراپردازی اور کردارکشی ہے۔ بمبئی کے ایک کرم فرما نے جو کچھ لکھا تھا۔ اُن کا مسئلہ ذاتی تھا جو سب کو معلوم ہے اور جسے میں دہرانا نہیں چاہتا۔ ان لوگوں کا مسئلہ بھی علمی نہیں ذاتی ہے۔ پھر بھی تین برس پہلے جب نندکشور وکرم اپنی کتاب چھاپ رہے تھے تو اُن کے پوچھنے پر میں نے صاف صاف کہا تھا اور میرا جواب چھپا ہوا موجود ہے :
’’جب میں نے تھیوری پر کام کرنا شروع کیا چونکہ میری تربیت ساختیاتی لسانیات کی ہے، مجھے احساس تھا کہ فلسفے میں بنیادی ضرورت سائنسی معروضیت کی ہوتی ہے۔ میرے سامنے ایسے نمونے تھے جہاں لوگ بات تو فلسفے کی کرتے ہیں لیکن جلد تخئیل کے پروں سے اڑنے لگتے ہیں۔ بہت سے اصل متن سے زیادہ خود کو نمایاں کرنے میں لگ جاتے ہیں یا پھر اپنے اسلوب کا شکار ہوکر انشائیہ لکھنے لگتے ہیں۔ ایک تو اصطلاحیں نہیں تھیں۔ دوسرے نئے فلسفیوں کا انداز ایسا پیچیدہ، معنی سے لبریز اور گنجلک ہے کہ اسے سائنسی معروضی صحت کے ساتھ قاری تک منتقل کرنا زبردست مسئلہ تھا۔ اصل متن کی صداقت و درستگی (Preciseness) اور زور وصلابت (Rigour) بنائے رکھنے کے لیے بے حد ضروری ہے کہ افہام و تفہیم میں ہر ممکن وسیلے سے مدد لی جائے اور فلسفے کے ڈسپلن کی رو سے تخئیل کی رنگ آمیزی سے اور موضوعی خیال بافی سے ممکنہ حد تک بچا جائے۔ میری کتاب کے شروع کے دونوں حصے تشریحی نوعیت کے ہیں۔ مشرقی شعریات اور اختتام والے حصوں کی نوعیت بالکل دوسری ہے۔ نئے فلسفیوں اور ان کے نظریوں اور اُن کی بصیرتوں کی افہام و تفہیم میں میں نے استفادہ اور اخذ و قبول سے بے دھڑک مدد لی ہے۔ جہاں ضروری تھا وہاں تلخیص و ترجمہ بھی کیا ہے اور ظاہر کردیا ہے۔ بات کا زور بنائے رکھنے کے لیے اصل کے مقولات (Quotations) بھی جگہ جگہ دینے پڑے تاکہ فلسفیانہ نکتہ یا بصیرت پوری قوت سے اردو قاری تک منتقل ہوسکے۔ ہر حصہ کے ساتھ اس کے جملہ مآخذ اور کتب حوالہ کی فہرست دی ہے (اسی لیے ان کو ’مصادر‘ کہا ہے) اور جن کتابوں سے نسبتاً زیادہ استفادہ کیا ہے یا جن سے زیادہ مدد لی ہے، مآخذ کی فہرست میں ان ناموں پر اسٹار (*) کا نشان بنادیا ہے۔ واضح رہے کہ خیالات سوسیئر، لیوی اسٹروس، رومن جیکب سن، لاکاں، دریدا، بارتھ، فوکو، کرسٹیویا، شکلووسکی، باختن وغیرہ کے ہیں، میرے نہیں۔ اس لیے کتاب کا انتساب ان سب فلسفیوں اور مفکروں کے نام ہے جن کے خیالات پر کتاب مشتمل ہے۔ اس امر کی وضاحت دیباچہ میں کردی گئی ہے کہ ’’خیالات اور نظریات فلسفیوں کے ہیں۔ افہام و تفہیم اور زبان میری ہے۔‘‘ ان فلسفیوں کو سمجھنا اور انھیں اردو میں لے آنا اور اردو میں اس طرح لے آنا کہ دوسرے بھی اس افہام و تفہیم میں شریک ہوسکیں اور جن کو اشتیاق ہو وہ چاہیں تو اصل کتابوں سے بھی رجوع ہوں اور ان بصیرتوں سے آگاہ ہوسکیں۔ میرے لیے مفکرین کی معروضی افہام و تفہیم بہت بڑا چیلنج تھا۔ میں اس سے عہدہ برآ ہوبھی سکا یا نہیں یا اردو میں کسی دوسری کتاب یا کسی دوسرے نے یہ تاریخی ضرورت پوری کی۔ اس پر مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ معترضین میری کتابیات (مصادر) اور اعتراف (دیباچہ) کا عمداً ذکر نہیں کرتے، یہ کھلی بددیانتی نہیں تو کیا ہے، ایسا کریں تو پھر جھوٹ کیسے بولیں!
(گوپی چند نارنگ : بین الاقوامی اردو شخصیت، مرتبہ نندکشور وکرم، دہلی 2008، ص 145)
ان ساری باتوں کی تفصیل میں نے دیباچے میں دے دی ہے اور سب مآخذ کے نام کتابیات میں درج ہے۔ کم و بیش ہر صفحہ فلسفیوں کے اقوال اور ان کے نام سے روشن ہے۔ ’مصادر‘ میں بیسیوں کتابوں پر خاص نشان ہیں جن سے میں نے جی بھر کے فیضان حاصل کیا۔ معترضین افکار و نظریات پیدائش سے ساتھ لاتے ہوں گے۔ میں نے تو جو کچھ حاصل کیا کتابوں سے حاصل کیا۔ ان کے نام بھی دے دیے اور ان کو نشان زد بھی کردیا۔ ادّعا میرا مزاج نہیں، پھر بھی میں چیلنج کرسکتا ہوں کہ کسی ایک ماخذ یا کسی ایک مصنف کا نام اب بتادیں جس کا حوالہ میری کتابیات میں نہ ہو۔ میں نے اوپر کہا ہے کہ میں نے بے دھڑک استفادہ کیا ہے۔ ان بیچاروں کو تو لفظ سرقہ کے معنی بھی نہیں معلوم۔ ایک لفظ کہیں دیکھ لیا اس کا راگ الاپنے لگے۔ میں صاف کہہ چکا ہوں کہ افکار و خیالات نظریہ سازوں اور نقادوں کے ہیں ان کو سمجھنا اور ترسیل میری ہے۔ میں نے جی بھر کے افہام و تفہیم بھی کی اور اخذ و استفادہ بھی کیا۔ جہاں سے جو کچھ لے سکتا تھا ڈنکے کی چوٹ پر لیا۔ البتہ ان افکار سے موتیوں کی جو مالا بنائی ہے اس میں موتی تو کہاں کہاں کے ہیں مگر وہ مالا میرے ذہن نے میں نے پروئی ہے۔ میری کتاب کے شروع کے دونوں سیکشن تشریحی ہیں جس میں ساختیاتی اور پس ساختیاتی مفکرین اور نظریہ سازوں کے خیالات کو جیسا میں نے سمجھا انھیں غیرضروری خیال آرائی سے بچاکر حددرجہ معروضی انداز میں اپنے فہم و ادراک کے مطابق اپنی زبان میں بیان کردیا۔ میں نے یہ کب دعویٰ کیا ہے کہ یہ خیالات یا نظریات اوریجنل میرے ہیں۔ البتہ جو نظریاتی مرقع بنایا ہے وہ برا بھلا میرے ذہن و شعور نے یعنی میں نے ہی بنایا ہے۔ اتنا جانتا ہوں کہ سرقہ ورقہ، چوری وغیرہ یہ سازشی مہم بازی کا حصہ ہے، میری کتاب تو ایک معمولی کتاب ہے، یہ کیڑے ڈال کر اس کی توقیر بڑھاتے ہیں۔ خود اس سے بہتر کتاب کیوں نہیں لکھ دیتے، یا ایک نام بتا دیں جس کو میں نے نشان زد نہ کیا ہو؟ میں ایک معمولی مصنف سہی، اتنا جانتا ہوں کہ بڑے مصنف چھوٹی موٹی چوری نہیں بڑا ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ کالی داس نے بھی ڈاکہ ڈالا تھا، ان کا ہر شاہکار مہابھارت اور پرانوں سے ماخوذ ہے۔ شیکسپیئر نے بھی ڈاکہ ڈالا تھا۔ غالب نے بھی بیدل پر ڈاکہ ڈالا تھا ورنہ یاس یگانہ چنگیزی زندگی بھر نام نہاد غالب شکنی کا جوکھم نہ اٹھاتے۔ اقبال پر بھی قرۃ العین طاہرہ کا الزام عائد کیا گیا۔ میں نے تو اپنے دیباچہ میں قاری کو اصل مآخذ سے رجوع ہونے کو بھی کہا ہے اور میری کتاب سے آگے نکل جانے کی دعوت بھی دی ہے۔ مجھے اپنی کوتاہیوں کا احساس ہے۔ مجھے خوشی ہوگی ایک دن ایسا آئے جب معترضین میں سے کوئی ذاتیات سے ہٹ کر دلسوزی، خلوص اور نیک نیتی سے ایسا کام کرے کہ میرا کام رد ہوجائے۔ خدا کرے ایسا ہو۔‘‘
’’کچھ تو ایسا ہے کہ خود شمس الرحمن فاروقی نے کہا تھا کہ ’’ادھر تنقید کی سطح پر ایک زبردست وقوعہ ظہورپذیر ہوا ہے وہ گوپی چند نارنگ کی کتاب ہے، یہ کتاب دیر تک اور دور تک اردو تنقید کو متاثر کرے گی‘‘ پھر یہ بھی فرمایا کہ ’’ یہ ایک بین العلومی کتاب ہے جس کی قدر زمانہ کرے گا۔‘‘ اگر اس کا دس فیصد بھی سچ ہے تو یہ مجھ ناچیز پر ان کا کرم ہے۔
اکرم نقاش صاحب، کیونکہ ادھر آپ نے سب کچھ نہیں پڑھا، میں چاہوں گا کہ آپ ڈاکٹر مولا بخش کی کتاب ’جدید ادبی تھیوری اور گوپی چند نارنگ‘ کا آخری باب ’’معترضین نارنگ پر ایک نظر‘‘ جو چالیس پچاس صفحات پر مشتمل ہے، اسے ضرور ملاحظہ فرمالیں اور ذیل کے دو مضامین بھی جو اس کے بعد انھوں نے لکھے ہیں، ان کو بھی دیکھ لیں ہر بات کا جواب مل جائے گا :
"Charge of Plagiarism: Myth or Reality?", www.outlookindia.com
''The Courtiers and Clowns", www.outlookindia.com
(دیکھنا تقریر کی لذت، ترتیب و تہذیب مشتاق صدف، بنگلور، 2010)
گذشتہ صدی کی آخری اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی وصفی اور کمیتی لحاظ سے گہری اور دور رس اثر کو چھوڑ والی ہے۔ یہ اردوئی مابعدجدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک کی امین ہے جو اکیسویں صدی پر محیط ہوگی۔ حالات خواہ کتنے ہی بحران آگیں ہوں، مسائل کتنے ہی چیلنج آگیں ہوں۔ کسی بھی نوعیت کے ادبی طالبان اور تہذیبی لشکران کتنے ہی شخصیت، فکر و فن کش ہوں، کیا زندگی اور ادب میں نت نئی تبدیلی کو زندہ رہنے کی آرزو دم توڑ دے گی؟ ایسا نامیاتی سطح پر ممکن نہیں ہے۔ اکیسویں صدی کے مابعدجدیدیت تناظر میں صرف منفی طاقت ہی طاقت ہوگی کوئی اثبات آگیں چیلنج نہ ہوگی، للکار نہ ہوگی، چنوتی نہ ہوگی، واضح رہے کہ : دم سے آگے بم کبھی جاتا نہیں/ جان دے کر بم کو سمجھاؤں گا میں / خاک مجھ کو ہر سفر میں ساتھ رکھ / ذہن افروزی کے کام آؤں گا میں / (مقیم اثر)
زندگی اور ادب نت نئے تخلیقیت افروز ممکنات اور مضمرات سے مملو ہے۔ نت نئی تخلیقیت اور معنویت کسی ایک مقام پر رکتی نہیں۔ یہ ہر لمحہ جواں، ہر لمحہ جرأت آزما، ہر لمحہ تازہ کار اور ہر لمحہ تبدیلی آشنا ہے۔ نارنگ کی خیالی ادبی موت کو ڈبل ٹیپ (موت متعین کرتے ہوئے) بھنڈر کی فلسفۂ مابعدجدیدیت کو سازشاً دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔ اس کا غیرادبی مقدر اول و آخر ازلی و ابدی زبونی اور خرابئ بسیار ہے۔ یہ طالبانی سرجیکل اسٹرائک بھی پھُس ہوگئی۔ نارنگ آج بھی ہمہ رُخی روشنی کا مینار ہیں۔ ان کا ہر ورقِ دل ’’کاغذِ آتش زدہ‘‘ (مطبوعہ 2011) ہے۔
(نظام صدیقی، تحریر 5 مئی 2011)

 ::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
NOTE:
(*) بھنڈر کی بچکانہ کتاب پر یہ مضمون نما تبصرہ 5 مئی 2011 کو لکھا گیا اور پوسٹ کردیا گیا۔ ابھی ابھی اگست میں الٰہ آباد میں کسی نے بتایا (میرے پاس کمپیوٹر یا اس کے وسائل نہیں ہیں) کہ خود حیدرقریشی نے بھنڈر کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے کہ وہ جعلی شخص ہے اور مضحکہ خیزیوں میں طاق ہے۔ سبحان اللہ۔ چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی! میں نے تو یہ سب کچھ پچھلے برس اپنے مضمون ’’اردو ادب میں طالبانیت اور ادبی طالبان‘‘ میں لکھ دیا تھا (مطبوعہ رسالہ نیاورق، بمبئی، شمارہ 34، جون 2010، ص 167 تا 177) اب دوسرے بھی کہہ رہے ہیں۔ یہ انکشاف تو ایک دن ہونا ہی تھا۔ کاش اس سے نام نہاد شمس العلما اور پڑھے لکھے چودھری حضرات کچھ سیکھ سکیں جن سب کو بھنڈر نے بیوقوف بنایا اور خوب استعمال کیا۔ اب معلوم ہوا کہ ایم فل یا پی ایچ ڈی تو کیا اب تک اس کا رجسٹریشن ہی نہیں ہوا اور وہ دوسروں کے نام سے اپنے حق میں مضمون بھی لکھواتا رہا ہے جس کو نام نہاد شمس العلما اور ان کے حواری بانس پر چڑھاتے رہے ہیں۔ یہ سچائی ہے اور میں واشگاف طور پر لکھ چکا ہوں کہ عمران بھنڈر کج مج بیان اور برخود غلط ہے۔ اردو ادب شناسی کے معاملے میں صفر محض ہے۔ نرگسیت اور خودنمائی کا قابل رحم مریض ہے اور اس کی کتاب کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑہ، بھان متی کا پٹارہ ہے جو انڈر گریجویٹ لیول کی بھی نہیں۔ یہ انکشاف میں کرنا چاہتا ہوں کہ وہاں انڈرگریجویٹ طالب علموں کو کلاس میں جو Notes & Queries دیے جاتے ہیں، بھنڈر کی کتاب ان کا بھونڈا چربہ ہے۔ اوپر میں نے بالتفصیل لکھ دیا ہے اور ثابت کردیا ہے کہ یہ شخص اردو ادب فہمی و ادب شناسی سے عاری محض ہے اور اردوئی ادبی منظرنامہ سے اس کا دور کا بھی رشتہ نہیں، خودستائی اور خودنمائی اس درجہ کہ گھن آنے لگے۔ پوری کتاب کج مج بیانی، بے ربطی، طوالت، تکرار اور ژولیدہ بیانی کا شاہکار ہے۔ اب لوگ اس کو پڑھیں گے تو خود انھیں اندازہ ہوگا اور رحم بھی آئے گا کہ ایک طائفہ کیوں ہیجڑوں کی طرح تالیاں بجا بجا کر ناچ رہا تھا کیونکہ خود ان بیچاروں نے نہ تو کتاب پڑھی تھی نہ سمجھنے کی زحمت کی تھی۔
(نظام صدیقی، 9 اگست 2011)  :